خادم نے دروازہ باہر سے بند کر دىا اور روشنى وغىرہ بند کر دى ىہ چاروں لوگ اندر چلے گئے۔
صبح ان کے مؤذن صاحب آئے اور حسبِ حال انہوں نے تبرا شروع کىا اور امام باڑہ کا دروازہ کھولا تو جس شخص کا نام ابو بکر اور عمر تھا انہوں نے کہا: بھائى على! دىکھو ىہ آپ کا پىرو کار ہے اور ہمىں گالىاں دے رہا ہے۔ تو جس شخص کا نام على تھا وہ بولا اس کو مىرے پاس پکڑ کر لاؤ مىں اس کو خود سزا دوں گا۔ تىنوں حضرات نے پکڑ کر على کے حوالہ کر دىا۔ اور جن کا نام على تھا انہوں اس کے دانت توڑ دىئے اور کہا مىرےساتھىوں کو گالىاں دىتا ہے ۔ اور وہ بے چارہ ہاتھ جوڑ کرکہتا رہا مولا على معاف کر دو اب تبرا نہىں کروں گا، مولا على معاف کر دو، مولاعلى معاف کر دو۔ اور ىہ حضرات وہاں سے چلے گئے۔
جب کچھ لوگ اپنى عبادت کے لئے آئے ىہ مؤذن بے ہوش تھا۔ انہوں نے اس کو اٹھاىا ۔ بس اس کى زبان پر اىک ہى لفظ ” مولا على معاف کر دو ، اب نہىں کہوں گا ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہتا رہا مولا على معاف کر دو“۔ لوگوں نے اس کو جگاىا اور تسلى دى اور پوچھا کىا بات ہے؟ تو اس نے رات کا سب واقعہ بىان کىا۔ تو ان لوگوں نے اس سے پوچھا کىا واقعى مولا على نے اپنے ہاتھوں سے تىرے دانت توڑے ہىں؟اس نے ہاں مىں جواب دىا۔ لوگوں نے اس کے کپڑے ، ٹوٹے ہوئے دانت اُٹھا کر ان کو چومنا شروع کر دىا ۔ ىہاں تک کہ اس جگہ جہاں اس کے ساتھ ىہ واقعہ پىش آىا تھا اس جگہ کى مٹى کو تبرک کے طور پر تقسىم کىا۔