وہاں حضرت تھانوى کا وعظ ہوگا۔ مىں دہلى مىں جمعہ کى نماز اکثر مختلف علماء کے ہاں پڑھتا تھا اس لئے دہلى کے اکثر علماء سے واقف تھا۔ حضرت مولانا مفتى کفاىت اﷲصاحب وغىرہ اور ىہ لوگ دہلى کے علم و عمل کے ماہتاب تھے۔ ہم جب مدرسہ عبد الرب پہنچے تو مسجد مکمل طور پر آدمىوں سے فُل ہو چکى تھى۔ ہمىں وضو خانہ مىں جگہ ملى۔ مىں حىران ہوا کہ حضرت مفتى کفاىت صاحب اپنے دىگر علماء کے ساتھ اسى جگہ بىٹھے ہوئے ہىں۔ مىرے دل مىں ىہ خىال آىا جن علماء کو مىں ہمىشہ ممبر پر دىکھتا ہوں آج وہ پىچھے بىٹھے ہوئے ہىں ىقىناً ىہ مولوى اشرف على تو بہت بڑے عالم ہىں۔ مىں نے خاموشى کے ساتھ حضرت کا وعظ سنا۔
حضرت والد صاحب کى تھانہ بھون حاضرى 1929ء سے شروع ہو کر 1943تک تقرىباً پندرہ سال تک جارى رہى۔ جب چھٹى ہوتى اور وىسے بھى چھٹى لے کر تھانہ بھون تشرىف لے جاتے رہے۔ حضرت خواجہ صاحب کے اکثر اشعار تحرىر فرماتے۔ ساقى نامہ بھى حضرت والد صاحب نے تحرىر فرماىا۔ خواجہ صاحب کو اس کى ضرورت پڑى کىونکہ وہ عجىب وغرىب ساقى نامہ ہے۔ تو پھر اس کى تلاش کى کہ کس نے لکھا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر عبد المجىد صاحب رىواڑى والے لکھ رہے تھے، تو حضرت خواجہ صاحب نے ساقى نامہ کا مسودہ حضرت والد صاحب سے مانگ لىا۔ اس آستانہ کى حاضرى خود حضرت والد صاحب نے تحرىر کى ۔ ان کى اپنى تحرىر ملاحظہ ہو:
مىرى ملازمت 1929ء سے شروع ہوئى۔ گوىا مىں خود مختار اسى وقت سے