اور علالت کے نہاىت بشاشت اور خندہ پىشانى کے ساتھ تشرىف لے جاتے۔ اىک بار تو مجھے ىاد ہے کہ اىک اىسا ہى سفر سخت گرمى اور لو کے زمانے مىں ہوا اور سفر بھى بارہ تىرہ روز کا، اور رىل اور بسوں مىں کرناتھا، جگہ جگہ قىام کرنا، سفر لاہور سے شروع ہوا اور کراچى پر ختم ہوا۔ مگر اس جھلسا دىنے والى گرمى اور لو کے تھپىڑوں مىں وہ تکالىف کى پرواہ کئے بغىر ، خانىوال سے غالباً سکھر تک ہمراہ رہے اور ہر ہر قدم پر رہنمائى اور شفقت و محبت سے نوازا۔ اس سفر مىں ان کے تعلق قلبى کے بے مثال مناظر سامنے آئے۔ اﷲاﷲ آج ہمارے قلوب مىں جو ان کى بے پناہ محبت و عظمت اور تعلق ہے وہ اىسا لگتا ہے کہ ہمارا کمال نہىں بلکہ انہى کا کمال تھا۔ افسوس صد افسوس! کہ اىک چراغ اور بجھ گىا اور ہم اس کى روشنى سے محروم ہوگئے۔ اب ان کى باتىں اور ىادىں باقى ہىں اور ہم ہىں۔ بقول حضرت خواجہ صاحبؒ ؏
کہ آنکھىں بند ہوں اور آدمى افسانہ ہوجائے
احقر عبد الدىان عرض کرتا ہے کہ احقر کے اس مضمون کى تفصىل کتاب کے شروع مىں درج ہے۔ حضرت مولانا نجم الحسن تھانوى کا مضمون اس جگہ تلخىص کے ساتھ ہے تفصىل شروع کتاب مىں ہے۔ پروفىسر آفتاب صاحب نے جو واقعہ لکھا ہے ىہ انہى کا تحرىر کر دہ ہے احقر کے قلم سے۔ حضرت مولانا محمد ىحىىٰ صاحب کو حضرت گنگوہىؒ کے بڑے خلفاء مىں لکھا، حالانکہ صورت حال ىہ ہے کہ تذکرۃ الرشىد مىں اس کا ذکر ہے کہ مولانا ىحىىٰ صاحب کى خلافت کا علم نہىں اور نہ ہى مولانا نے کبھى خود اس کا ذکر کىا۔ ہاں مولاناىحىى حضرت گنگوہىؒ کے شاگرد خاص اور معتمد خاص تھے۔ ملاحظہ ہو تذکرۃ الرشىد