اﷲتعالىٰ بارہ سال تک فرىضہ تبلىغ سر انجام دىتے رہے۔ اسى طرح پنجاب کے علاقہ مىں بھى ان دونوں حضرات نے مىراث کے مسئلہ کى خوب تبلىغ کى۔ ان واقعات کى تفصىل کے لئے ”اشرف السوانح“ حصہ سوم اور احقر کى کتاب ”تذکرہ حضرت مفتى عبد الکرىم گمتھلوى رحمہ اﷲتعالىٰ“ قابل ملاحظہ ہىں۔ اس سے ان حضرات کے باہمى تعلق کا بھى اندازہ ہوتا ہے۔
ان حالات سے واقفىت کے بعد احقر ناکارہ کا حضرت بچھراىونى رحمہ اﷲسے تعلق اور بھى زىادہ ہوگىا اور ان کے حالات کى جستجو مىں لگ گىا۔ حضرت والد صاحب رحمہ اﷲتعالىٰ سے آپ کے بارہ مىں معلوم ہوا کہ حضرت بچھراىونى رحمہ اﷲحکىم الامت تھانوى رحمہ اﷲ کے خاص خلفاء مىں سے تھے اور انہوں نے اىک مرتبہ حضرت حکىم الامت تھانوى سے سوال کىا کہ حضرت بچوں کو بڑوں کى مجلس مىں آنے سے کىا فائدہ ہوتا ہے؟ حضرت حکىم الامت رحمہ اﷲنے اس پر فرماىا کہ ”انہىں بزرگوں سے اُنس ہوتا ہے اور اُنس ہى سے تعلق بڑھتا ہے ، اس لئے ان کا بزرگوں کى مجلس مىں بىٹھنا فائدہ سے خالى نہىں“۔
حضرت حکىم الامت تھانوى رحمہ اﷲکى کتاب ”تربىت السالک“ سالکىن کے لئے اىک عظىم تحفہ اور مصلحىن کے لئے اىک رہنما ورہبر ہے۔ اپنے موضوع پر ىہ بڑى ضخىم کتاب ہے اس کا شائع کرنا آسان نہ تھا لىکن حضرت بچھراىونى رحمہ اﷲنے اپنے شىخ کى محبت مىں اس کى اشاعت کے تمام تر اخراجات برداشت کئے اور اس کتاب کو شائع فرماىا۔ بچپن مىں ىہ سب حالات حضرت والد صاحب رحمہ