بالذکرو التضرع کی اکفیکم ملوککم (رواہ ابو نعیم فی الحلیلۃ، مشکوٰۃ کتاب الامارۃ)‘‘ {خداتعالیٰ فرماتے ہیں۔ میں اﷲہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں مالک الملک ہوںَ شہنشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے قبضہ میں ہیں اور میرے بندے جب میری اطاعت کرتے ہیں تو میں بادشاہوں کے دل بندوں کے حق میں نرم کر دیتا ہوں۔ پس وہ ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آتے ہیں اور جب بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں بادشاہوں کے دل بندوں کے حق میں سخت کر دیتا ہوں۔ پس وہ ان کو سخت تکلیف دیتے ہیں۔ تم بادشاہوں کو بددعا دینے کی بجائے خدا کو یاد کرو اور اس کے حضور میں گریہ زاری کرو۔ خدا ان کی طرف سے تمہاری کفایت کرے گا۔} یہ صادق المصدوق سردار دو جہاںؐ کا فرمان ہے۔ جس میں ہماری جملہ مشکلات کا حل ہے اور پھر اس پر عمل کرنا بھی سہل ہے۔ تمام مشکلات کا حل اس لئے ہے کہ خدا کی طرف رجوع ہے۔ جو قادر مطلق ہے۔ بادشاہوں کے دلوں کا مالک ہے اور ماں باپ سے زیادہ مہربان ہے اور سہل اس لئے ہے کہ ہمارے اختیار کی شے ہے۔ ہمیں کسی سخت دل کے حوالے نہیں کیا۔ واﷲ الموفق!
خاتم النبیین کا معنی
آخر میں ہم چاہتے ہیں کہ اس لفظ کا معنی واضح کر دیں۔ کیونکہ مرزائی عموماً اس میں دھوکہ دیتے ہیں اوراس کے معنی یہ کرتے ہیںکہ جناب سرور کائناتﷺ نبیوں کی تصدیق کی مہر ہیں۔ یعنی آئندہ وہ نبی ہوگا۔ جس پر آپؐ کی اتباع کی مہر ہوگی اور اس بناء پر مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں۔ کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ سردار دوجہاں کے کامل متبع ہیں۔
۱… لیکن اصلیت یہ ہے کہ یہ دعویٰ ہی اس کی تکذیب کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ یہ معنی آج تک نہ کسی صحابی کی سمجھ میں آئے۔ نہ تابعی نہ تبع تابعی۔ نہ ائمہ دین میں سے کسی نے یہ معنی کئے کہ آئندہ نبی وہ ہوگا۔ جس پر سردار دوجہاںﷺ کے اتباع کی مہر ہوگی۔ اگر مرزائیوں میں ہمت ہے تو سلف صالحین سے اس کا ثبوت پیش کریں۔
اور جب یہ لفظ کا معنی ہی نہیں۔ بلکہ مرزاقادیانی کا اپنا اختراع (من گھڑت) ہے تو پھر کامل متبع تو کجا سرے سے اتباع ہی سے خارج ہوگئے اور مسلمان ہی نہ رہے۔
۲… دوم یہ معنی ایک اور طریق سے بھی غلط ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے۔ یہاں پر تین قرأتیں ہیں۔