مقام غور
ان عبارات کو پڑھئے۔ باربار پڑھئے اور غور کیجئے کہ جن لوگوں کی مسلمانوں سے مقاطعہ کی یہ سکیمیں ہوں۔ ان کو مسلمانوں میں شامل کرنا انصاف اور عدالت کا خون نہیں تو اور کیا ہے؟
آپس میں تکفیر کا مسئلہ
مذکورہ بالا عبارت سے مرزائیوں کی سکیم مقاطعہ کی وضاحت کے علاوہ ایک شبہ کا جواب بھی ہوگیا۔ جو عام طور پر کیا جاتا ہے اور بظاہر معقول سمجھا جاتا ہے۔ وہ شبہ یہ ہے کہ دوسری جماعتوں میں دیوبندی بریلویوں کو۔ اسی طرح اہل حدیث کے ساتھ ان کا اختلاف ہے۔ نیز شیعہ، سنی نزاع بھی اسی رنگ کی ہے اور علیٰ ہذا القیاس دوسری جماعتوں کو سمجھ لیا جائے۔ اگر اسی طرح کی تکفیر سے ایک دوسرے کو کاٹا جائے اور امت مسلمہ سے الگ کیا جائے تو پھر مسلمان کون رہا؟
جواب اس کا یہ ہے۔ کفر واسلام کی ایک تفریق کسی شخصیت میں اختلاف کی بناء پر ہوتی ہے۔ جیسے یہودیوں، عیسائیوں میں، اور عیسائیوں مسلمانوں میں تفریق ہے۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں۔ لیکن یہودی ان کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان حضرت محمد مصطفیﷺ کو سید المرسلین تسلیم کرتے ہیں اور عیسائی ویہودی آپؐ کی تکذیب کرتے ہیں۔
اور ایک تفریق کسی شخصیت میں اختلاف کی بناء پر نہیں ہوتی۔ بلکہ دونوں اس کو صاحب وحی وصاحب الہام مانتے ہیں اور اسی کی وحی والہام کو دلیل میں پیش کرتے ہیں۔ تکفیر صرف الہامی کلام کے ثبوت، عدم ثبوت یا اس کے معنی ومفہوم میں اختلاف کی بناء پر ہوتی ہے۔ جیسے مرزائی لاہوری اور قادیانی ہر دو گروہ مرزاغلام احمد کو صاحب وحی وصاحب الہام مانتے ہیں۔ انکے قول سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن معنی ومطلب میں ان کا اس قدر اختلاف ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کو کافر کہتا ہے۔ اسی طرح دوسری جماعتوں کی آپس میں تکفیر صرف معنی مفہوم میں اختلاف کی بناء پر ہے۔ ورنہ نبی سب کا ایک ہے۔ سب اسی کی وحی والہام کو دلیل اور حجت سمجھتے ہیں۔ منکرین حدیث کا بھی نبی جدا نہیں ہے۔ ان کو صرف حدیث کے وحی اور الہامی کلام ہونے میں اختلاف ہے۔
یہ تفریق اگرچہ کفر تک پہنچ گئی ہے۔ مگر اس میں وہ بعد نہیں جو پہلی تفریق میں ہے۔ جس کی دو وجہیں ہیں۔