فرمادیں کہ جتنا جہیز آپ نے اپنی لڑکی کو دیا تھا۔ کیا اسے بھی اسی قدر ہی دیا ہے۔ مرزاقادیانی کو تو ہم نے مسیح موعود تسلیم کیا۔ مگر خلافت تو ہماری قائم کردہ ہے۔ خدا کی طرف سے نہیں۔ چنانچہ اس کے بعد مولوی صاحب نے ان کے کسی معاملہ میں دخل نہ دیا اور اس کے بعد ان میاں بیوی کے تعلقات بھی آپس میں بہت اچھے رہے۔
اخبارات
قادیان میں اخبارات تو کثرت سے نکلتے تھے۔ ان کا عشر عشیر بھی تمام ضلع گورداسپور سے نہ نکلتا تھا اور یہی اخبارات اور رسالے مرزائیوں کو تبلیغ کا کام دیتے ہیں۔ وہ لوگ جن کو پہلے دین کا کچھ علم نہیں ہوتا۔ وہ ان کو پڑھ کر اکثر اس جماعت میں شامل ہوجاتے۔ میرے ایک مہربان شیخ یعقوب علی جو کسی زمانہ میں امرتسر میں وکیل اخبار میں کام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے قادیان جاکر الحکم اخبار جاری کیا اور یہی ان کا سب سے پہلا اور معتبر اخبار تھا۔ اس کے صفحہ اوّل پر یہ شعر تحریر ہوتا تھا ؎بیاور بزم رنداں تا بہ بینی عالمے دیگر
بہشتے دیگر وابلیس دیگر آدمے دیگر
بجائے بہشت کے بہشتی مقبرہ تو قادیان میں میں نے بھی دیکھا۔ باقی ابلیس وآدم یہ شیخ صاحب بہتر جانتے ہوںگے۔ یا شاید قارئین اس کا کچھ اندازہ کر سکیں۔ بہرکیف وہاں کا باوا آدم نرالا ہی تھا۔ مرزاقادیانی پیغمبر ہوئے۔ مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل ابوبکر ثانی، مرزابشیر الدین محمود فضل عمر خلیفہ ثانی۔ اب دیکھیں خلیفہ سوئم اور چہارم کون ہوتا ہے اور جنگ جمل کب شروع ہوتی ہے۔
حرمت رمضان شریف اور قادیان
مرزاقادیانی کا قول ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ قادیانی خاندان نبوت کا یہ حال تھا کہ نانا جان تو ہمیشہ رمضان شریف میں مسافر بن جاتے اور چندہ وصول کرنے کے لئے باہر چلے جاتے۔ مرزا محمود قادیانی اور ان کی محترمہ والدہ اتفاق سے اسی مہینہ میں بیمار ہو جاتے۔ کبھی آشوب چشم کی شکایت ہو جاتی۔ کبھی درد سر ہو جاتا اور کسی دن میں دوچار چھینکیں آجاتیں تو مولوی محمد عارف صاحب امام اقصیٰ کو آرام ہو جاتا کہ دونوں وقت (فدیہ کی) مرغن غذا میسر ہو جاتی۔ ادھر دھرت رام بالائی کی برف والا دعائیں دیتا کہ نبوت خانہ میں اس کی برف کی خوب مانگ رہتی اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کیونکہ خود مرزاقادیانی بھی روزہ تو کجا مسافری میں