۲…غیراحمدی مسلمان نہیں ’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ کیونکہ کہ ہمارے نزدیک وہ خدا کے ایک نبی کے منکر ہیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۰)
۳…مسلمان بچے کا جنازہ نہ پڑھو
’’اگر کسی غیراحمدی کا چھوٹا بچہ مر جائے تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے؟ میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا۔ غیراحمدی کا بچہ بھی غیراحمدی ہوا۔ اس لئے اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔‘‘
(انوار خلافت ص۹۰)
۴…مسلمانوں کو رشتہ نہ دو
’’حضرت مسیح موعود نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ جو اپنی لڑکی غیراحمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے باربار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا۔ آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی بٹھائے رکھو۔ لیکن غیراحمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعدا س نے غیراحمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اوّل (نورالدین) نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کر دیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی۔ باوجودیکہ وہ باربار توبہ کرتا رہا۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۳،۹۴)
مسلمان یہودی وعیسائی ہیں
مرزابشیر احمد لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت مسیح موعود نے غیراحمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا ہے۔ جو نبی کریم نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیراحمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم ان کے ساتھ مل کر کر سکتے ہیں؟ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ ایک دینی دوسرا دنیوی۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہوتا ہے اور دنیوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دئیے گئے۔ اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں کہ نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے۔ اور اگر یہ کہو کہ غیراحمدیوں کو سلام کیوں کہا جاتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریم نے یہود تک کا جواب دیا ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل مندرجہ ریویو آف ریلجنز ج۱۴ ص۱۶۹)