۳… غیرمسلم اپنی مذہبی کتابیں چھاپ سکتا ہے۔ اپنے مذہب کی تعلیمات کو اور ان خوبیوں کو جو اس کے نزدیک اس کے مذہب میں ہیں۔ تحریر وتقریر میں بیان کر سکتا ہے اور قانون کے حدود میں رہتے ہوئے مسلمانوں سے مذہبی مباحثہ بھی کرسکتا ہے۔ بلکہ اپنے وہ اعتراضات اور شبہات بھی بیان کر سکتا ہے۔ جو وہ اسلام کے بارے میں رکھتا ہو۔ اس کی کوئی ممانعت ہمیں کہیں نہیں ملی۔ خود نبیﷺ کے زمانے میں عیسائی، یہودی اور دوسرے لوگ دارالاسلام میں آتے تھے اور حضورﷺ سے برسرعام مذہبی مباحثہ کرتے تھے۔ مذہبی مباحثہ اس بات کو مستلزم ہے کہ فریق ثانی اپنے مذہب کی خوبیاں بھی بیان کرے اور اسلام پر تنقید بھی کرے۔ اسلام اپنے آپ کو دلائل کے لحاظ سے مفلس نہیں پاتا کہ وہ استدلال کے میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے فوجداری عدالت کے ذریعہ سے مخالف مذہبوں اور مسلکوں کا مقابلہ کرے۔
۴… جو چیز اسلامی ریاست میں ممنوع ہے۔ وہ ایک مخالف اسلام دعوت اور تحریک کا اٹھنا ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ دنیا میں وہ کون سی ریاست ہے جو اپنی اساس وبنیاد کے خلاف کسی دعوت اور تحریک کو اٹھنے دیا کرتی ہو۔ برطانیہ، امریکہ، روس، فرانس سب اپنے اپنے دستوری نظام کی حفاظت میں ویسے ہی مستعد ہیں جیسے ہم اسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں کی حفاظت میں مستعد ہونا چاہتے ہیں۔ بلکہ اس معاملہ میں جو اندھا دھند سختی وہ کرتے ہیں۔ شاید مسلمان اتنی سختی نہ کریں۔ ایک قاعدے اور اصول کو الفاظ میں بیان کرنا اور چیز ہے اور عملاً اس کو نافذ کرنا اور چیز۔ عمل میں لاتے وقت ہر دانشمند آدمی یہ دیکھے گا کہ خطرہ کس نوعیت و مرتبے کا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے میں کتنی سختی یا نرمی برتنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ریاست کا انتظام بہرحال ڈاک خانے کے چپراسی نہیں کریں گے کہ ہر خط پر آنکھیں بند کر کے ایک ہی مہر لگاتے چلے جائیں۔
جہاد اور اس سے تعلق رکھنے والے مسائل
آگے چل کر عدالت مسئلہ جہاد کو لیتی ہے اور اس سلسلہ میں جہاد کے تصور، دارالاسلام ودارالحرب کے امتیاز، اسیران جنگ کی پوزیشن، غنیمت اور خمس کے مسائل اور غیرمسلم رعایا کے انجام سے تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کرتی ہے کہ علماء کے تصور کی اسلامی ریاست اگر وجود میں آئی تو:
۱…
یہ ریاست بیرونی دنیا سے ایک ابدی جنگ میں الجھ جائے گی۔