کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ کلمہ توحید جنت کی کنجی ہے۔ چنانچہ مشکوٰۃ کتاب الایمان میں ہے کہ وہب بن منبہ سے کسی نے سوال کیا کہ کیا کلمہ توحید جنت کی کنجی نہیں؟ فرمایا کنجی دندانے بغیر نہیں ہوتی۔ اگر دندانوں والی کنجی لائے گا تو جنت کا دروازہ کھلے گا۔ ورنہ نہیں۔
گویا ان کا اشارہ اسی طرف تھا کہ کسی عمل کا تسلسل کلمہ توحید کی صحت کے لئے لازمی ہے۔ (جس میں اوّل نمبر نماز ہے)
اور اگر کوئی زبردستی اس میں اختلاف کرے۔ (ھالانکہ جس اختلاف کو قرآن، حدیث مٹادے۔ اس کو اختلاف نہیں کہنا چاہئے۔ بلکہ اسکا نام غلطی یا کچھ اور رکھنا چاہئے) تو کلمہ توحید زیر تعلیمات قرآنیہ ماننا اور اقرار کرنا۔ اس کی تسلیم پر تو اتفاق ہے۔ پس بہرصورت مسلمان کی متفقہ تعریف ثابت ہوگئی۔ اصل میں جو عدالت میں علماء جاتے ہیں۔ ان سے اکثر اپنی تقریروں کی وجہ سے اور سیاسیات میں زیادہ حصہ لینے کی وجہ سے عوام میں خاص کر انگریزی خواں حضرات میں وہ بڑے مولانا مشہور ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
مرتد کی تعریف
مسٹر محمد باقر امیر جماعت اسلامی ملتان… نے عدالت میں مرتد کی تعریف یہ کی ہے۔ جو ان بنیادی اصولوں کو جن پر اسلامی مملکت کی اساس (بنیاد) رکھی گئی ہو۔ تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۱؎۔‘‘ (اخبار آثار مورخہ ۱۹؍صفر ۱۳۷۳ھ، مطابق ۲۹؍اکتوبر ۱۹۵۳ئ)
یہ تعریف اسلامی رواداری بیان کرتے ہوئے کی۔ جس کا مطلب یہ کہ اسلامی حکومت میں خواہ کوئی اسلام ترک کر دے اس کو بھی قتل نہیں کر سکتے جب تک بغاوت نہ کرے۔ گویا مرتد کو دوسرے کفار کی طرح سمجھتے ہیں کہ جیسے وہ حکومت اسلامی میں رہ سکتے ہیں۔ مرتد بھی رہ سکتا ہے۔ حالانکہ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ارتداد سے دوسروں کے دلوں میں شکوک پیدا ہوتے ہیں اور کفر کا راستہ کھلتا ہے اور پہلے سے کافر ہونے میں یہ بات نہیں۔ چنانچہ قرآن مجید پارہ۳ رکوع۱۶ میں اس کا بیان ہے اور پھر آج تک کسی نے مرتد کی یہ تعریف نہیں کی۔ نیز یہ حدیث کے بھی صریح خلاف ہے۔ چنانچہ بخاری میں حدیث ہے: ’’من بدل دینہ فاقتلوہ (مشکوٰۃ باب قتل اہل الردۃ
۱؎ مودودی صاحب کا بھی یہی نظریہ ہے۔ ملاحظہ ہو بیان مودودی در تحقیقاتی عدالت قسط ۲ زیرعنوان ’’مرتد کی سزا اسلام میں‘‘ مندرجہ روزنامہ نوائے پاکستان لاہور۔ ۲۸؍اپریل ۱۹۵۴ء