نوٹ: مرزائی بعض دفعہ کہا کرتے ہیں کہ نبوت رحمت ہے۔ رحمت بند نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن آپ صاحب شریعت نبی کا آنا خود ہی بند کررہے ہیں۔ کیا یہ صاحب شریعت نبی رحمت نہیں۔ مرزائیوں کے دلائل ایسے ہی بے سروپا ہوتے ہیں۔ اپنی تردید آپ ہی کر جاتے ہیں۔ مگر ان کو پتہ نہیں لگتا۔
مغالطہ دہی اس نمبر میں بعض بزرگان سلف اور اہل سنت کا یہ عقیدہ لکھا ہے کہ صاحب شریعت نبی نہیں آسکتا۔ غیرصاحب شریعت نبی آسکتا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ ان بزرگوں کی عبارتوں کا غلط مفہوم لیاگیا ہے۔ مقصد ان کا یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اگرچہ آئیں گے اور وہ صاحب شریعت نبی ہیں۔ مگر ان کی دوبارہ آمد صاحب شریعت کی حیثیت سے نہیں ہوگی۔ بلکہ شریعت محمدیہ پر عمل کریں گے اور بعض بزرگوں کا مقصد یہ ہے کہ خاتم کے معنی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نبوت کے درجہ میں انتہاء کو پہنچ گئے ہیں۔ گویا آپؐ پر نبوت کے کمالات کا خاتمہ ہوگیا اور ظاہر ہے کہ جب شئے انتہائے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو ختم ہو جاتی ہے۔ پس اس سے بھی لازم آیا کہ آپؐ کے بعد ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ یعنی نئی نبوت کا دروازہ بند ہے۔ کیونکہ سارے منازل طے ہوچکے ہیں۔ اس لئے نئی نبوت کی گنجائش نہیں اور اسی بناء پر آپؐ نے سلسلہ نبوت کو مکان سے تشبیہ دیتے ہوئے خود کو آخری اینٹ فرمایا ہے۔ چنانچہ پہلے حدیث گذر چکی ہے۔
بہرصورت ان بزرگوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نئی نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ جیسے مرزائیوں کا خیال ہے۔ اگر ہمت ہے تو کوئی صریح ایسی عبارت دکھاؤ کہ جس میں انہوں نے خاتم النبیین کا یہ معنی کیا ہو کہ سرکار دو جہاںﷺ آئندہ نبیوں کی مہر ہیں اور اگر کسی نے ایسا کیا ہو تو اہل سنت نہیں۔ بلکہ گمراہ ہے۔ کیونکہ وہ قرآن وحدیث اور خیر قرون کے خلاف ہے۔
حضرت عائشہؓ اور مسئلہ ختم نبوت
اسی نمبر میں تکملہ مجمع البحار کے حوالہ سے حضرت عائشہؓ کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ رسول اﷲﷺ کو خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو۔ ’’لا نبی بعدہ‘‘ {آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں۔} اور اس کا مطلب یہ لکھا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے نزدیک نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ اگر خاتم النبیین سے آئندہ نبیوں کی نفی ہوتی تو پھر حضرت عائشہؓ لا نبی بعدہ کہنے سے کیوں روکتیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو حضرت عائشہؓ کے اس قول کی منقطع السند کا ہی اعتبار نہیں۔ ایسے غیرمعتبر قول پر اتنے بڑے مسئلہ کی عمارت کھڑی کرنا کون سی عقل مندی ہے۔