اور ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی کر دیتی ہے کہ تم بطور خود مطالبات کے خلاف زور دار پروپیگنڈا کرو۔ مگر دیکھنا، کہیں ہمارا نام نہ لے دینا۔ (رپورٹ ص۱۴۸،۲۸۳،۳۵۳)
کیا ان پے درپے شہادتوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قادیانی مسئلے میں عوام کی بے چینی انتہائی شدت پر پہنچی ہوئی تھی؟ اور اس بے چینی کا ہی یہ کرشمہ تھا کہ جو لوگ عدالت کے اپنے بیان کردہ واقعات کے بموجب، قانون اور نظم کا کھلم کھلا استخفاف کر رہے تھے۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہوئے حکومت ایک دن دودن نہیں برسوں ڈرتی رہی۔ علاوہ بریں ان دستاویزوں میں حکومت کے ذمہ دار افسر خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس مسئلے میں قوم کی عظیم الشان اکثریت اس پالیسی کے خلاف تھی۔ جس پر حکومت چل رہی تھی اور عوام میں مقبول وہ لوگ تھے جو قادیانیوں کے متعلق زیر بحث تین مطالبات پیش کر رہے تھے۔
مطالبات کے عوامی ہونے کا ثبوت
یہ بات کہ مطالبات کو قوم کی اور خصوصاً پنجاب کے پاشندوں کی (جوان کا درحقیقت یہ مسئلہ تھا) عام تائید حاصل تھی۔ صرف انہی شہادتوں سے ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ پوری رپورٹ اس کے ثبوتوں سے بھری پڑی ہے۔
ملک کی قریب قریب تمام جماعتیں (مسلم لیگ، جماعت اسلامی، مجلس احرار، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، جمعیت اہل حدیث، انجمن تحفظ حقوق شیعہ وغیرہ) ان کی مؤید تھیں۱؎، اور غالباً جناح عوامی لیگ اور آزاد پاکستان پارٹی کے سوا کوئی جماعت ایسی نہ تھی جس نے ان کے حق میں کھلا کھلا اظہار خیال نہ کیا ہو۔ مگر ظفر اﷲ خاں کے متعلق مطالبہ میں کچھ دوسرے وجوہ سے یہ دونوں پارٹیاں بھی عوام سے متفق تھیں۔
۱؎ ایک جگہ اس معاملے کی اہمیت کو عدالت کے اس استدلال نے واقعہ سے بہت گھٹا دیا ہے کہ کنونشن میں شریک ہونے والی جماعتوں نے الگ الگ اپنے اپنے نظاموں کے تحت ان مطالبات کو منظور نہیں کیا تھا۔ بلکہ مختلف جماعتوں کے جو نمائندے، خواہ وہ عہدہ دار ہوں یا نہ ہوں۔ کنونشن میں شریک ہوئے تھے۔ صرف انہوں نے مطالبات کے ریزولیوشن کی تائید کی تھی۔ اس سے عدالت یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ مطالبات بس کنونشن کے ان شرکاء ہی کے متفقہ مطالبات تھے۔ ان جماعتوں کے نہ تھے۔ جن کی نمائندگی یہ شرکاء کر رہے تھے۔ (رپورٹ ص۱۸۵) لیکن اس استدلال سے ہمیں اس لئے اختلاف ہے کہ اگر کسی جماعت کے نمائندوں نے بھی ان مطالبات کو منظور کرنے میں اپنی جماعت کی پالیسی سے تجاوز کیا ہوتا (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)