مرزاقادیانی کے ایمان اور دعویٰ میں تناقض
اﷲتعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے کہ میری نازل کردہ وحی اور خاتم النبیینﷺ کے کلام میں تناقض نہیں ہوسکتا۔ ’’افلا یتدبرون القراٰن ولو کان من عند غیر اﷲ لوجدوا فیہ اختلافا کثیراً (النسائ:۸۲)‘‘ {پھر کیا قران میں تدبر نہیں کرتے اور اگر یہ غیراﷲ کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے۔}
لیکن مرزاغلام احمد قادیانی کی تمام کتب تناقض سے بھری پڑی ہیں اور ان کے کلام میں تناقض کو پیش کرنے کے لئے کئی جلدیں درکار ہیں۔ نمونہ کے لئے چند تناقض پیش کئے جاتے ہیں۔ جن سے معلوم ہواگا کہ وحی جو وہ اﷲتبارک وتعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ان کی اپنی وضع کردہ ہے اور تناقض سے بھرپور ہے اور جن مدعیان کے کلام میں تناقض ہے۔ اس کے متعلق خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
الف… ’’کسی سچیار عقل مند اور صاف دل انسان کے کلام میں ہرگز تناقض نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی پاگل اور مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد۱؎ کے طور ہاں میں ہاں ملا دیتا ہے۔ اس کا کلام بے شک متناقض ہو جاتا ہے۔‘‘ (ست بچن ص۳۰، خزائن ج۱۰ ص۱۴۲)
ب… پھر لکھتے ہیں: ’’ظاہر ہے کہ ایک دل سے دو متناقض باتیں نکل نہیں سکتیں۔ کیونکہ ایسے طریق سے انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔‘‘ (ست بچن ص۳۱، خزائن ج۱۰ ص۱۴۳)
ج… ’’جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
مرزاغلام احمد قایانی کے کلام تو کیا؟ ایمان میں بھی تناقض تھا۔ کہیں حضورؓ کے متعلق لکھتے ہیں: ’’آپؐ کے فیض برکت سے مجھے نبوت کا مقام ملا۔‘‘ اور پھر یہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’اے قیصرہ ہند، ملکہ وکٹوریہ تیرے بابرکت زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام کی خو اور طبیعت (مجھے) دی گئی۔ اس لئے مسیح کہلایا۔‘‘ ذیل میں مرزاقادیانی کے ایمان وکلام میں تناقض کے چند نمونے پیش ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱؎ جیسے مرزاقادیانی نے حکومت برطانیہ کی خوشامد میں اپنی تحریروںسے پچاس الماریاں بھری تھیں۔ مؤلف!