سرکاری مراسلات میں لوگوں پر جھوٹی تہمتیں لگاتے ہوں۔ جہاں مذہبی رجحانات کو کچلنے کے لئے پولیس اور فوج کے کسی بدتر سے بدتر ظلم کو بھی ظلم کہنے پر کوئی حاکم عدالت تیار نہ ہو۔ جہاں ’’قادیانی مسئلہ‘‘ جیسے پمفلٹ کی تصنیف پر سزائے موت اور اس سے اتر کر سزائے حبس دوام تجویز کی جاتی ہو اور جہاں ملک کی مرکزی مجلس قانون ساز اس طرح کی سزاؤں کو برقرار رکھنے کے لئے باقاعدہ قانون پاس کر دیتی ہو۔ وہاں اگر ایک بریلوی کسی دیوبندی کو یا ایک دیوبندی کسی بریلوی کو سزائے ارتداد دے ڈالے تو آخر یہ کون سی عجیب بات ہو جائے گی۔ بگڑی ہوئی قوم، جس کے سیاسی لیڈر، انتظامی حکام، قانون ساز، اور دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے سب ہی بگڑے ہوئے ہوں۔ اس کے مولوی ہی آخر بگاڑ سے کیسے بچے رہ جائیں گے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم عدالت کی یہ غلط فہمی بھی رفع کر دینا چاہتے ہیں کہ اسلامی قانون میں ارتداد کی سزا لازماً ہر حال میں موت ہی ہے۔ فقہ اسلامی کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ اکثر فقہاء جن میں حضرت عمرؓ جیسی جلیل القدر شخصیت بھی شامل ہے۔ ارتداد کے لئے سزائے موت کو واحد سزا نہیں بلکہ انتہائی سزا قرار دیتے ہیں۔ حضرت عمرؓ سے ایک مرتبہ چند مرتدوں کے بارے میں ذکر کیاگیا تو انہوں نے فرمایا: ’’کنت اعرض علیہم الاسلام فان ابوا اودعتہم السجن‘‘ {میں ان کے سامنے اسلام پیش کرتا، اگر وہ قبول نہ کرتے تو میں ان کو قید کر دیتا۔} مذہب حنفی میں مرتد عورتوں کو مستقلاً سزائے موت سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ابراہیم نخعی مرتد کو رجوع کرنے کی غیر محدود مہلت دینے کے قائل ہیں۔ (نیل الاوطار ج۷ ص۱۶۰تا۱۶۳) اسی طرح کی اور مثالیں بھی مختلف فقہاء کے مذاہب میں ملتی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سزائے موت کو ارتداد کی واحد سزا سمجھنے کا خیال صحیح نہیں ہے۔
غیرمسلموں کا حق تبلیغ
ارتداد کی سزا سے منطقی طور پر یہ سوال۱؎ پیدا ہوا کہ اسلامی حکومت میں غیرمسلم مبلغین کو اپنے مذہب کی علانیہ تبلیغ کا حق حاصل ہوگا یا نہیں۔ اس سوال کے بارے میں علماء کا نقطۂ نظر متعین کرنے کے لئے عدالت نے مولانا ابوالحسنات کے ساتھ ساتھ ماسٹر تاج الدین انصاری اور غازی سراج الدین منیر سے بھی معلومات فراہم کی ہیں اور حسب ذیل نتائج تحقیق پیش کئے ہیں۔
۱؎ دیکھئے! کس طرح سوال سے سوال پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب چونکہ پہلا سوال زیر تحقیق امور سے کسی نہ کسی درجے میں متعلق ٹھہرا۔ لہٰذا آگے ہر وہ سوال جو اس سوال سے کوئی تعلق رکھتا ہو۔ خود بخود تحقیقاتی کارروائی سے متعلق ہوتا چلا جارہا ہے۔