علاقہ غیر میں اس سول نافرمانی کا بہت زیادہ اثر ہوا۔ آخر حکومت کو اپنا تھوکا چاٹنا پڑا اور حکم امتناعی واپس لے کر عام ہیجان کو روکنے کے سوا کوئی چارنہ نہ دیکھا۔
مسلم لیگ سے ہمارا تعاون
ایک مدت سے مسلمانوں کے آئین پسند طبقے میں میاں سر فضل حسین اور مسٹر محمد علی جناح (قائداعظم) رہنمائی کے دعویدار تھے۔ ان دونوں کا ڈکٹیٹرانہ دل ودماغ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے حق میں شمشیر برہنہ تھے اور کوئی شخص ان کے مزاج میں دخیل نہ تھا اور وہ کسی کی نہ سنتے تھے۔ اس لئے کسی کو حوصلہ نہ تھا کہ ہمت کر کے ان کو کہتا کہ جنگ سے صلح بہتر ہے۔ دونوں میں میاں فضل حسین زیادہ باتدبیر تھے۔ میں نے ہندوستان میں ان سے زیادہ کایاں شخص کوئی نہیں دیکھا۔ وہ سیدھی بات کرنے کے قائل نہ تھے۔ ہوشیار سے ہوشیار آدمی کا آسانی سے شکار کھیل لیتے تھے۔ کوّے کا شکار کرنا ہو تو بندوق کی نالی دوسری سمت رکھ کر کندھوں کے برابر اٹھانا چاہئے۔ پھر اچانک رخ کوّے کی طرف کر کے نشانہ باندھنا چاہئے۔ تاکہ زیرک جانور شکاری کی چال سے بے خبر رہے اور اڑنے کا موقعہ نہ پائے۔ ایسی ہی میاں صاحب کی تدبیریں ہوتی تھیں۔ وہ بڑے مزاج شناس تھے۔ اسی اندازہ سے بات کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ پر پیچ راستوں سے گذر کر مخالف کی پشت پر آنکلتے تھے۔ خاتمہ کر کے بھی دشمن کی موت کا الزام سر نہ لیتے تھے۔ برخلاف اس کے مسٹر جناح سیدھی راہ سامنے سے آکر چوٹ کرتے تھے۔ دشمن کو ہوشیار اور خبردار کر کے وار کرنا مشکلات میں اضافہ کرتا ہے۔ اسی لئے مسٹر محمد علی جناح (قائداعظم) مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کے مقابلے میں کانگریس سے پٹ کر نکلے اور مسلمانوں کے اعلیٰ طبقہ میں میاں صاحب کے جیتے جی معقول جگہ حاصل نہ کر سکے۔ حکومت ہند کی نظر میں مسٹر محمد علی جناح، میاں سرفضل حسین کے سامنے ایک بے اثر شخصیت رہی۔ اب جب الیکشن کی گہما گہمی ہوئی تو قائداعظم مسٹر محمد علی جناح نے دوڑ گھوم کر مسلم لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنا چاہا۔ وہ لاہور آکر میاں صاحب پر ڈورے ڈالنے لگے۔ مگر میاں صاحب کچی گولیاں نہ کھیلے تھے۔ انہوں نے صاف جواب دیا کہ خالص اسلامی جماعت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنا عملی سیاسیات میں مفید نہیں۔ کیونکہ اسلامی صوبوں میں مشترکہ حکومت کے سوا کوئی اور صورت نہیں۔ ہندوستان کی سیاسیات میں ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ ہندو مسلمان عملاً دو دشمن قومیں ہندوستان میں آباد ہیں۔ مسلمان چونکہ محسوس کرتا ہے کہ ہندو اسے بطور اچھوت کے سلوک کرتا ہے۔ اس لئے عام حالات میں کسی قسم کے تعاون کے لئے تیار نہ تھے۔