ہوتے ہوئے دیکھ کر کوئی نیک انسان امارت کی باگ دوڑ سنبھالنے کی کوشش کرے یا اس کا سوال کرے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے۔
’’قال اجعلنی علیٰ خزائن الارض انی حفیظ علیم‘‘ {یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کو کہا مجھے وزیر خزانہ بنادو۔ کیونکہ میں محافظ واقف کار ہوں۔}
حضرت حسینؓ امارت کی کوشش کرتے کرتے کربلا کے میدان میں شہید ہوگئے۔ اگر ان کی امارت قائم ہو جاتی تو وہ بھی اسی قسم سے ہوتی۔ چنانچہ تاریخ ابن جریر وغیرہ میں ہے کہ انہوں نے کتاب اﷲ ہاتھ میں لے کر کہا۔ ’’یا اﷲ تو جانتا ہے کہ مجھے امارت کی حرص نہیں۔ یزید نے تیری کتاب کو ضائع کر دیا۔ میں اس کو قائم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
تیسری صورت یہ کہ کوئی اقتدار پسند انسان تغلب (زور بازو یا لطائف الحیل) کے ساتھ امیر بن جائے۔ جیسے یزید کی امارت اسی قسم سے ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد اقتدار تھا۔ نہ کہ حدود اﷲ قائم کرنا۔
بیعت یا حلف وفاداری
پہلی دو صورتیں تقرر امارت کا صحیح طریقہ ہے اور شرعی حدود کے اندر ہے۔ اسی لئے اس میں شمولیت ضروری ہے۔ اگر ایسی امارت کی بیعت سے گریز کرے یا حلف وفاداری نہ اٹھائے تو ایسے شخص کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: ’’واولی الامر منکم‘‘
اور حدیث شریف میں ہے: ’’مات میتۃ جاہلیۃ (مشکوٰۃ کتاب الامارۃ)‘‘
رہی تیسری صورت سو اس کا حکم اوپر بیان ہوچکا ہے کہ بادشاہوں کو لعن طعن کرنے کی بجائے خدا کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ تاکہ خدا ان کے دل نرم کرے اور تمام مشکلیں حل ہو جائیں۔ کیونکہ مصائب کا اصل باعث انسان کے اپنے اعمال ہیں۔ رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں: ’’کما تکونون کذالک یؤمر علیکم (مشکوٰۃ کتاب الامارۃ)‘‘ {تم جیسے ہوگے۔ ویسے ہی تم پر امیر مقرر ہوںگے۔}
ایسے امراء سے بیعت یا حلف وفاداری کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ عبداﷲ بن عمرؓ نے یزید اور عبدالملک بن مروان کے ساتھ بیعت کر لی اور لکھا کہ خدا ورسولﷺ کی اطاعت پر بیعت ہے اور حضرت حسنؓ، عبداﷲ بن زبیرؓ اور عبدالرحمن بن ابی بکرؓ وغیرہ نے بیعت نہ کی اور عبداﷲ بن عمرؓ نے بھی اس وقت بیعت کی جب سب لوگ قریباً ایک امیر پر متفق ہوگئے۔ جب تک اختلاف رہا علیحدہ رہے۔ ملاحظہ ہو بخاری ج۲ کتاب الفتن ص۱۰۵۳، کتاب الاحکام ص۱۰۶۹، مع فتح الباری وغیرہ۔