کے مجموعے ہی ہیں۔ جن کی طرف یہ معلوم کرنے کے لئے رجوع کرنا ہوگا کہ سنت کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ علماء کا مطالبہ بھی اس سے زیادہ نہیں ہے کہ قرآن اور سنت کو اصولی طور پر ماخذ قانون اور حدیث کو سنت کے معلوم کرنے کا ذریعہ مان لیا جائے۔ اب اس کے بعد یہ امر کہ قرآن اور سنت سے کیا ثابت ہے اور کیا نہیں ہے۔ بہرحال ایک علمی تحقیق کا موضوع ہوگا۔ جس کا فیصلہ مختلف اہل علم کے دلائل پر ہوگا۔ نہ کہ اشخاص اور گروہوں کے ادّعا پر۔ دلیل کے بغیر نہ علماء ہی کی بات چل سکے گی نہ کسی جج اور جسٹس کی، نہ کسی وزیر اورگورنر کی۔
علماء کے تصور اسلام پر عدالت کی قدح
یہ تو تھا وہ اسلام جسے عدالت اسلام کہتی ہے۔ اب دیکھئے کہ عدالت کی نگاہ میں علماء کا اسلام کیا ہے اور کیسا ہے؟
طریق تحقیق
اس سلسلے میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ عدالت نے یہ بات کس ذریعہ سے معلوم کی کہ علماء کس چیز کو اسلام کہتے ہیں۔ اس سوال کی تحقیق کے لئے جب ہم رپورٹ کو اور شہادتوں کے اس ریکارڈ کو، جو پچھلے سال اخبارات میں شائع ہوتا رہا ہے۔ غور سے دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت نے علماء کے اسلام کا پتہ چلانے کے لئے دو طریقوں سے کام لیا ہے:
اوّل… یہ کہ اس نے ہر اس شخص کو عالم دین فرض کیا ہے جو اسلامی نظام کی حمایت کرنے والی کسی جماعت سے تعلق رکھتا تھا اور گواہ کی حیثیت سے عدالت میں حاضر ہوگیا۔ یہاں اگر ایک طرف مفتی محمد شفیع اور مولانا محمد ادریس اور مولانا ابوالحسنات عالم دین ہیں تو دوسری طرف ماسٹر تاج الدین انصاری، غازی سراج الدین منیر، میاں طفیل محمد وغیرہ حضرات بھی عالم دین ہی ہیں اور مستند ہے سب کا فرمایا ہوا۔
دوم… یہ کہ ان حضرات کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کے لئے ٹھیٹھ عدالتی جرح کا طریقہ اختیار کیاگیا۔ جس میں سوال کرنے والے کو (خصوصاً جب کہ سائل خود عدالت ہو) پوری آزادی ہوتی ہے کہ جو کچھ چاہے اور جس طرح چاہے پوچھے اور گواہ پابند ہوتا ہے کہ خود سے کچھ نہ کہے۔ بس اتنی بات کا جواب دے جتنی اس سے پوچھی جارہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ طریق تحقیق جو واقعاتی امور کی چھان بین کے لئے ناگزیر ہے۔ کیا علمی ونظریاتی مسائل کو طے کرنے کے لئے بھی یہ کافی اور مفید ہوسکتا ہے؟ اگر یہ کافی اور مفید ہوسکتا ہے تو کیا قانون، فلسفے،