قرآن مجید کی بعض آیات کریمہ سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ ’’وانما توفون اجورکم یوم القیامۃ‘‘ {اور بجز اس کے نہیں کہ تم بروز قیامت اپنے (نیک اعمال کا) پورا پورا اجر دئیے جاؤ گے۔}
’’ثم توفی کل نفس ما کسبت وہم لا یظلمون‘‘ {پھر ہر نفس پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ جو اس نے کیا اور ان پر ظلم ہر گز نہیں کیا جائے گا۔}
ان ہر دو آیات کریمہ سے واضح ہوگیا کہ توفی کا معنی پورا پورا لینا ہے۔
توفی کا مجازی معنی
مذکورہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ توفی کا اصل اور حقیقی معنی تو کسی چیز کو پورا پورا لینا ہے۔ مگر کسی مناسبت کی وجہ سے مجازی طور پر اور معنی میں بھی اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً کبھی موت کے معنی میں توفی کو لیا جاتا ہے۔ کیونکہ موت کے وقت روح کو پورا پورا لے لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں وارد ہے۔ ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا‘‘
اور ’’حتیٰ یتوفا ہن الموت‘‘ اور کبھی نیند میں توفی کو استعمال کر لیا جاتا ہے۔ کیونکہ نیند، عقل، ادراک، تمیز، شعور، اصعاد الیٰ السماء میں کو پورا پورا لیا جاتا ہے۔ جیسا قرآن میں فرمایا: ’’وھو الذی یتوفاکم باللیل‘‘ اور وہی ہے جو تمہیں رات کو پورا پورا لے لیتا ہے اور کبھی اجر وثواب میں توفی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ ’’وانما توفون اجورکم یوم القیامۃ‘‘ بلاشبہ روز قیامت تم پورا پورا اجر دئیے جاؤ گے۔ (علامہ زمخشری، اساس البلاغۃ ج۲ ص۳۰۴) مصری پر ہے: ’’ومن المجاز توفی وتوفاہ اﷲ ای ادرکتہ الوفاۃ‘‘ (تاج العروس شرح قاموس ج۱۰ ص۳۹۴) پر ہے۔ ’’ومن المجاز ادرکتہ الوفاۃ اذا وردت علیہ الموت‘‘ ثابت ہوا کہ توفیٰ کا حقیقی معنی تو وہی کسی چیز کو پورا پورا لینا ہے۔ لیکن مجازی طور پر بوجہ کسی مناسبت کے اور معنی پر بھی اس کو بولا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ توفی کو مجازی طور پر موت، نیند اجر، رفع الیٰ السماء وغیرہ بولا جاتا ہے۔ مگر حقیقی اور اصلی وضعی معنی وہی کسی چیز کو پورا پورا لینا ہے۔ اس بنا پر آیت کریمہ کا معنی یہ ہوا۔ جب کہ کہا اﷲتعالیٰ نے اے عیسیٰ بے شک میں تجھے پورا پورا لینے والا ہوں اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ صرف روح کا نام نہیں ہے۔ بلکہ روح وجسم ہر دو کا نام ہے۔ نیز متوفیک اور رافعک میں کاف خطاب سے مراد روح صرف نہیں بلکہ روح اور جسم دونوں مراد ہیں۔ اسی طرح تطہیر کا متعلق بھی جسم ہے نہ کہ روح۔ یونہی فوقیت وغلبہ جسم سے