بریں علم وایمان بباید گریست
اور حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۷۰ء کی لندن کانفرنس کا انعقاد ایک رسمی کارروائی تھی۔ حالانکہ اس سے پیشتر حکومت برطانیہ ہندوستان میں ایک پشتینی خوشامدی حکومت پر ست خانوادے کی تلاش میں کامیاب ہوچکی تھی۔ یہ خاندان شروع میں سے حکومت کے کاسہ لیس اور وفاداری کا دم بھرنے والے لوگوں میں سے صف اوّل کا خاندان تھا۔ جس کی تصدیق کے لئے مرزاقادیانی کا اپنا بیان کافی ہے۔ مرزاقادیانی اپنے خاندان اور حکومت برطانیہ کے دیرینہ تعلقات کے ثبوت میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جو اس حکومت کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا۔ جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریز کی مدد کی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریز کی امداد میں دئیے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیاں خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں۔ مگر تین چٹھیاں جو مدت سے چھپ چکی ہیں۔ ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے دادا صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی غلام قادر خدمات سرکار میں مصروف رہا اور جب تموں کے گذر پر مفسدوں کا سرکار انگریز کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریز کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔‘‘
(حوالہ اشتہار الاظہار مورخہ ۲۰؍ستمبر ۱۸۹۷ئ، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۵۹)
مرزاقادیانی کی انگریزی ظلی نبوت اور اس کی پروان
مرزاقادیانی ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء قادیان میں پیدا ہوئے۔ چند کتابیں گھر پر پڑھیں۔ والد کے حکم سے پھر زمینداری کو سرانجام دینے لگے۔ والد کے انتقال کے بعد دادا کی مرضی سے سیالکوٹ کسی دفتر میں پندرہ روپے پر ملازم ہوگئے۔ پھر چار سال کے بعد مختار کاری کا امتحان دیا۔ مگر فیل ہوگئے۔ عرصہ ملازمت میں ایک دو کتابیں انگریزی کی بھی پڑھ لیں۔ گذارہ نہ ہوتا تھا۔ ملازمت چھوڑ کر گھر آگئے۔ قرآن اور حدیثوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔
(کتاب البریہ ص۱۵۹تا۱۶۳، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷تا۱۸۱، سیرت المہدی حصہ اوّل ص۴۳،۱۵۵، ۱۵۶)