مندرجہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی مدعی نبوت کو کاذب، کافر، دائرہ اسلام سے خارج اور لعنتی سمجھتے ہیں۔ باوجود ان تصریحات کے خود بھی دعویٰ نبوت کرتے ہیں۔
غیرتشریعی نبوت کا دعویٰ
۱… ’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے۔ صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔ مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدی سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اسی کا نام پاکر اسی کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے۔ رسول اور نبی ہوں۔ مگر بغیر کسی جدید شریعت اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے۔ سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔‘‘ (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ص۶،۷، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰،۲۱۱)
۲… ’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا کوئی نبی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے۔ مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اس بناء پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ ص۲۸، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)
مدیر پیغام صلح اس حوالہ پر خصوصی غور فرمائیں کہ: ’’مرزاقادیانی امتی بھی ہیں اور رسول بھی۔‘‘ تو کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی ہوتے ہوئے محمد مصطفیﷺ کے امتی نہیں ہوسکتے؟ اس میں کیا استحالہ ہے؟
تشریعی نبوت کا ادعا
’’اگر کہو کہ صاحب الشریعۃ افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے۔ نہ ہر ایک مفتری، اوّل تو یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔ خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی۔ ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے؟ جس سے اپنی وحی کے ذریعے سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب الشریعۃ ہوگیا۔ پس اس تعریف کے رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔‘‘
(رسالہ اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
اور سنئے! فرماتے ہیں۔مرزاقادیانی نے ۱۸۹۹ء میں تریاق القلوب لکھی۔ اس کے (ص۱۵۸، خزائن ج۱۵ ص۴۸۱) پر لکھا کہ: ’’میں غیر نبی ہوں۔ مجھ کو مسیح سے کیا نسبت۔ اگر کچھ میری فضیلت کی وحی ہوتی تو میں اسے جزوی فضیلت قرار دیتا۔‘‘