دوم… مالا عورتوں کے لئے زینت ہوتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی شان اس قسم کی تشبیہات سے بلند ہے۔
طوق اور تاج (مالا) بنانے کی اصل غرض زینت ہوتی ہے اور خاتم میں۔ اگرچہ بالتبع زینت ہے۔ مگر خاتم کی اصل غرض قدیم دستور میں صرف مہر ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اصل لغت عرب میں خاتم کے معنی زینت نہیں آئے۔
اس سے واضح ہوا کہ شاعر نے بل کا لفظ پہلے مصرعہ کے صرف دو الفاظ طوق اور تاج کو ملحوظ رکھ کر استعمال کیا ہے۔ نہ کہ خاتم کے لحاظ سے۔
سوم… عربیت کی رو سے اس شعر کا معنی ہی صحیح نہیں۔ کیونکہ اس شعر میں یہ کہا ہے کہ نبی اکرمﷺ صرف انبیاء کی زینت نہیں۔ بلکہ تمام بندوں کی زینت ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جب آپؐ انبیاء علیہم السلام کے لئے زینت ہوئے تو دوسرے لوگوں کے لئے بطریق اولیٰ زینت ہوئے۔ ایسے معنی کو لفظ بل کے ساتھ بیان نہیں کیا جاتا۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے۔ ماں باپ کو اف نہ کہو۔ اس سے گالی دینے کی ممانعت بطریق اولیٰ سمجھی جاتی ہے۔ اس کو اگر کوئی یوں بیان کرے کہ ماں باپ کو اف نہ کہو۔ بلکہ اس کے ساتھ گالی بھی نہ دو۔ تو یہ صحیح نہیں۔ کیونکہ اس سے معنی مطلب میں ترقی نہیں بلکہ تنزل ہوا۔ ہاں یوں کہنا صحیح ہے کہ ماں باپ کو گالی نہ دو بلکہ اف بھی نہ کہو۔ اس بناء پر اس شعر میں یوں کہنا چاہئے تھا کہ نہ صرف تمام بندوں کی زینت ہیں۔ بلکہ انبیاء کی بھی زینت ہیں۔ پس یہ شعر عربیت کی رو سے غلط ہے اور اس سے استدلال کرنا واقعی مرزائیت کا ہی کمال ہے۔
اس کے علاوہ خاتم بمعنی زینت سے بھی نبیﷺ کا آخری نبی ہونا لازم آجاتا ہے۔ کیونکہ خاتم جس کی زینت بنائی جاتی ہے۔ وہ پہلے ہوتا ہے اور یہاں نبی اکرمﷺ جن کے لئے زینت ہیں۔ وہ انبیاء علیہم السلام ہیں۔ پس وہ آپؐ سے پہلے ہوئے اور آپؐ ان سب کے بعد۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں۔ سچ ہے ؎
عبار اتنا شتی وحسنک واحد
فکل الیٰ ذالک الجمال یشیر
مرزائیوں کی دو رنگی
مرزائیوں کے الفضل اخبار کا ایک نمبر ۲۷؍جولائی ۱۹۵۲ء کو خاتم النبیین کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اس میں اس بات پر زور دیا تھا کہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ صاحب شریعت نبی