’’یاایہا الذین امنوا اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیٔ فردوہ الیٰ اﷲ والرسول ان کنتم تؤمنون باﷲ والیوم الاخر ذلک خیرو احسن تاویلا (النسائ:۵۹)‘‘ {اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اس کی جس کو تم نے اپنا امیر چنا ہے۔ پھر اگر کسی چیز میں (امیر سے) باہم جھگڑا ہو جائے تو اس کا فیصلہ اﷲ اور اﷲ کے رسول کی طرف لے جاؤ۔ (یعنی قرآن کی روشنی میں حل کرو) اگر تم اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہو۔ یہ بہتر اور انجام کا اچھا ہے۔}
اور جنگ صفین کے موقعہ پر جب قصاص عثمانؓ کے حصول کی غرض سے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ برسر پیکار تھے تو صحابہؓ نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ اس تنازعہ کا فیصلہ قرآن حکیم کی روشنی میں کیا جائے۔ چنانچہ فریقین نے ہتھیار رکھ دئیے۔ اس واقعہ کو تاریخ اسلام میں ’’واقعہ تحکیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ تفصیل کے لئے میری کتاب ’’قصاص سیدنا عثمانؓ وتکمیل بیعت رضوان‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
احادیث اور ختم نبوت
حضور نبی آخرالزمانﷺ کے زمانہ میں ہی مسیلمہ کذاب نے دعویٰ نبوت کر دیا تھا جسے رازدار نبوت اور خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کیفرکردار تک پہنچا دیا۔
خاتم الرسل والنبیین مخبر صادقﷺ کو علم تھا کہ ان کے بعد اس منصب جلیلہ کو حاصل کرنے کے لئے کئی کذاب، نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ چنانچہ آپؐ نے قیامت تک مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ وہ ان جھوٹے مدعیان نبوت کے جال میں نہ پھنسیں۔
’’عن ثوبانؓ قال قال رسول اﷲﷺ وانہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلہم یزعم انہ نبی اﷲ (وفی روایۃ البخاری والمسلم کلہم یزعم انہ رسول اﷲ) وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی (رواہ ابوداؤد والترمذی، مشکوٰۃ باب۳۹)‘‘ {ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس کذاب پیدا ہوںگے۔ ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ نبی اﷲ ہے۔ (بخاری ومسلم میں ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میری امت میں تیس کے قریب دجال اور کذاب پیدا ہوںگے۔ ان میں ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ رسول اﷲ ہے) حالانکہ میں (سلسلہ) انبیاء ختم کرنے والا ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}