اثرات کا شدت سے مقابلہ کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے رپورٹ کے فاضل مصنفین کی توجہ ان سرکاری اطلاعات کی جانچ پرکھ کی طرف منعطف نہ ہوسکی۔ ورنہ وہ کبھی اس پر تیار نہ ہوتے کہ ان کے قلم سے ایک عدالتی تحقیقات کی رپورٹ میں کسی کے خلاف ایک لفظ بھی ایسا بلاتحقیق نکل جائے۔ جس سے اس کا مستقبل مدتوں کے لئے خراب ہوسکتا ہو۔
یہ صرف چند نمایاں مثالیں ہیں۔ ایسی متعدد اور مثالیں ان غلط بیانیوں کی پیش کی جاسکتی ہیں جو سرکاری اطلاعات میں کی گئی تھیں اور رپورٹ میں جوں کی توں نقل ہوگئی ہیں۔
واقعات کا غیر متوازن بیان
رپورٹ کا ایک پہلو یہ بھی قاری کے سامنے آتا ہے کہ واقعات کے بیان میں از اوّل تا آخر مخالفین قادیانیت ہی کی تحریروں، تقریروں اور کارروائیوں کا ذکر پوری طرح چھایا ہوا ہے۔ یہ ذکر خال خال ہی کہیں آیا ہے کہ اس دوران میں قادیانی حضرات کیا کہتے اور لکھتے اور کرتے رہے۔ داستان کے ایک رخ میں بڑی تفصیل ہے اور دوسرے رخ میں انتہائی اجمال بلکہ اشارات۔ ہمارا مدعا یہ ہرگز نہیں ہے کہ کسی جانبداری کی بناء پر ایسا کیا گیا ہے۔ ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بے لاگ نگاہ سے دیکھنے والے ایک عام آدمی کو اس معاملہ میں رپورٹ کا بیان بہت غیرمتوازن نظر آتا ہے۔ ایک طرف قادیانیوں کے اقوال واعمال کا وہ مجمل بیان ہے جو صفحہ ۱۹۶تا۱۹۹تک اور ۲۶۰تا۲۶۱تک (صرف چار پانچ صفحات) میں ہمیں ملتا ہے اور دوسری طرف ان کے مخالفین کی کاروائیاں ہیں۔ جن سے رپورٹ کا بہت بڑا حصہ بھرا ہوا ہے۔ ان دونوں حصوں کو دیکھ کر کم سے کم ایک ناواقف آدمی، ملکی بھی اور غیرملکی بھی۔ یہی سمجھے گا کہ اس جھگڑے میں ساری زیادتی سالہا سال سے ایک ہی فریق کرتا رہا ہے اور دوسرے ’’مظلوم فریق‘‘ کا کوئی نمایاں پارٹ زیرتحقیق صورت حالات کے پس منظر میں موجود نہیں ہے۔ اگر عدالت کا اپنا تاثر ہی ایسا ہوتو چاہئے تھا کہ وہ رپورٹ میں واضح طور پر موجود ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ عدم توازن محض اتفاقی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا جو غلط اثر ناواقف لوگوں پر پڑ سکتا ہے۔ اس کا کیا علاج؟ اس کا اب کوئی علاج ممکن نہیں۔
طنزیات
رپورٹ کے انداز بیان میں طنز کا اسلوب خوب دل کھول کر استعمال کیاگیا ہے۔ اس کے چند نمونے ملاحظہ ہوں۔