اٹھنے کے باعث یہ مری ہوئی جماعت پھر سے عوام کی رہنما بن کر کھڑی ہوگئی۔ نہ جانے ہمارے فاضل ججوں کی گہری نگاہ سے یہ بات چھپی ہوئی کیسے رہ گئی کہ ان شہادتوں سے درحقیقت کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ سوچتے وقت قاری کے کانوں میں رپورٹ کے ابتدائی حصہ کے یہ الفاظ گونجنے لگتے ہیں کہ: ’’ایک موجود بے چینی سے فائدہ اٹھانے اور خود ایک بے چینی پیدا کر دینے میں بس ایک قدم ہی کافرق ہے۔‘‘ (رپورٹ ص۱۳)
لیکن قطع نظر اس سے کہ یہ نظر یہ بجائے خود صحیح ہے یا نہیں۱؎۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک ملک کے وہ سربراہ کتنے نادان ہیں جو ملک میں عام بے چینی پیدا کر دینے والے ایک مسئلے کو موجود پاتے ہیں۔ اس کے خطرناک امکانات کو اچھی طرح محسوس کرتے ہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس سے کوئی چاہے تو کتنا غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے اور پھر اسے حل کرنے کی کوئی فکر کرنے کے بجائے قصداً نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔
رائے عامہ کی شدت اور ہمہ گیری
مذکورہ بالا شہادتیں تو صرف اتنا ہی ثابت کرتی ہیں کہ پنجاب کے عوام میں قادیانی مسئلے پر ایک عام بے چینی موجود تھی۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر مزید سرکاری شہادتیں ہمارے سامنے ایسی آتی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اس مسئلے پر رائے عامہ اس قدر ہمہ گیر،ا س قدر سخت اور اتنی پرزور تھی کہ احرار ایک مدت دراز تک علانیہ خلاف قانون کارروائیاں کرتے رہے۔ مگر حکومت ان پر کوئی گرفت کرنے سے اس لئے ڈرتی رہی کہ قادیانی مسئلے پر کسی مسلمان کے خلاف قدم اٹھانا یا کوئی ایسی کارروائی کرنا جو مسلمانوں کے مقابلے میں قادیانیوں کی پشتیہ بانی سمجھی جاسکے۔ عام مسلمانوں کے لئے سخت وجہ اشتعال بن جائے گا۔
جنوری ۱۹۵۰ء میں بعض حرار لیڈروں کی ’’منافرت انگیز تقریروں‘‘ کے متعلق ایک مقدمہ تیار ہوا اور پولیس کی طرف سے ان کے خلاف کارروائی کی تجویز پیش کی گئی۔ اس پر حکومت کے مشیر قانون ملک محمد انور صاحب یہ نوٹ لکھتے ہیں: ’’احمدیت کے معاملے میں مسلمانوں کے
۱؎ درحقیقت اس نظریے کو درست تسلیم کرنا بہت مشکل ہے۔ جس مسئلے کے متعلق لوگوں میں کوئی احساسات موجود نہ ہوں اور جس پر بے چینی پیدا ہونے کے لئے کسی قسم کے واقعی اور فطری اسباب نہ پائے جاتے ہوں۔ اس پر کسی وقت اشتعال انگیز تقریر سے چند آدمیوں کا بھڑک اٹھنا تو ممکن ہے۔ لیکن یہ قطعاً ناممکن ہے کہ لاکھوں اور کروڑوں آدمی کسی کے بھڑکانے سے اس پر بھڑک اٹھیں اور برسوں تک پیہم بھڑکے رہیں۔