نہیں آسکتا۔ گویا اس لفظ میں نبیوں سے مراد صاحب شریعت نبی ہوئے اور وہ گذشتہ نبی ہیں اور یہ مرزائیوں کے مذکورہ بالا معنی کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس میں آئندہ نبی مراد لئے ہیں۔ جن پر تصدیق کی مہر ہو۔ اصل میں جھوٹے کی بات کوئی ٹھکانے کی نہیں ہوتی۔
دورنگی کی ایک اور مثال، مرزائی ادھر تو کہتے ہیں۔ صاحب شریعت نبی نہیں آسکتا اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ نبی وہ آسکتا ہے۔ جس پر رسول اﷲﷺ کی اتباع کی مہر ہو۔ حالانکہ صاحب شریعت نبی کو بھی اتباع کا حکم ہے تو گویا صاحب شریعت بھی آسکتا ہے۔
محمد رسول اﷲﷺ جو صاحب شریعت نبی ہیں۔ ان کو بھی اتباع کا حکم ہورہا ہے۔ ’’فبہدٰہم اقتدہ‘‘ یعنی اے محمدؐ! تو پہلے نبیوں کی اتباع کر۔
اور دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ’’ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا‘‘ یعنی اے محمدؐ! تو ملت ابراہیمی کی اتباع کر۔
خاتم النبیین میں الف لام کا معنی
الف لام کے چار معنی آتے ہیں۔
۱… سب اور تمام۔ جیسے ’’الحمدﷲ رب العالمین‘‘ {تمام حمد اﷲ کے لئے ہے۔ جو رب ہے تمام جہانوں کا۔}
۲… حقیقت اور جنس شے اس کی مثال بھی الحمد ﷲ ہے۔ یعنی حمد کی حقیقت اور جنس خدا کے لئے ہے۔
۳… معین شے جیسے سورہ مزمل میں ہے۔ ’’فعصیٰ فرعون الرسول‘‘ فرعون نے معین رسول موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی کی۔
۴… اشیاء میں کوئی غیر معین شے جیسے ’’فا کلہ الذئب‘‘ بھیڑیوں میں سے کسی بھیڑئیے نے یوسف کو کھا لیا۔
اب سوال یہ ہے کہ آیت خاتم النبیین میں الف لام کون سی قسم ہے۔ اخیر کی دو قسمیں تو مراد نہیں ہو سکتیں۔ چوتھی اس لئے کہ غیر معین نبیوں کے خاتم ہونے کا کوئی مطلب نہیں اور تیسری قسم مراد ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ تعیین کے لئے پہلے کوئی قرینہ چاہئے۔ پس پہلی دو قسمیں مراد ہوںگی اور معنی یہ ہوا کہ آپؐ تو (تشریعی، غیرتشریعی) تمام انبیاء کے خاتم ہیں۔ یا حقیقت اور جنس انبیاء کے خاتم ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جب کسی شے کی جنس ہی ختم ہو جائے تو اصل شے ہی ختم ہو گئی۔ اب یہ کہنا کہ غیرتشریعی نبی پیدا ہوسکتا ہے۔ اس آیت کریمہ کے صریح خلاف ہے۔