ایک تحقیقاتی فیصلے کا تقاضا کر رہا تھا اور اب رپورٹ نے یہ فیصلہ دے کر پاکستان کے ایک تصور کو مستند اور دوسرے تصور کو ساقط الاعتبار قرار دیا ہے۔ یہاں پھر چونکہ بحث نظریاتی واعتقادی میدان میں جاداخل ہوتی ہے۔ اس لئے ججوں کی ذاتی رائے کو عدالتی رائے سے الگ رکھنے والی کوئی حد فاضل باقی رہ نہیں سکتی۔ اب اس رپورٹ کے مباحث دوسرے تصور اور مطمح نظر کی حمایت کرنے والے تمام کے تمام فریقان کارروائی اور دوسرے عام لوگوں کو ایک عجیب بودی اور مضحکہ انگیز پوزیشن میں پیش کرتے ہیں اور اس کا ازالہ کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ پاکستان کے تصور اور مطمح نظر کی بحث کسی اور میدان میں اٹھتی تو لوگ دلائل سے اس کے پرخچے اڑا کے رکھ دیتے۔ اس سے قبل متعدد وزراء اور عہدہ داروں اور اہل قلم کو اس کا تجربہ ہوچکا ہے۔ تاہم عملاً اس بات کا فیصلہ کرنا اب بھی پاکستان کے عام لوگوں کا اپنا کام ہے کہ آیا پاکستان کا مستند تصور ومطمح نظر وہ ہے جو فسادات پنجاب کی تحقیقات کرنے والی عدالت پیش کرتی ہے یا وہ جو تحریک پاکستان کا محرک بنا اور جسے پاکستان کی رائے عامہ نے قرارداد مقاصد اور اس کے مطابق بننے والے دستوری خاکے کی شکل تک پہنچا دیا۔ نظریات، مقاصد، نظام حیات کے تصورات اور ریاستوں کے مطمح ہائے نظر کے میدان میں ایسی رپورٹیں فیصلہ کن نہیں ہوسکتیں۔ بلکہ قوموں کے اجتماعی ذہن کے فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔
اسلام اور اسلامی ریاست
اب ہم بحث کے دوسرے گوشے کو لیتے ہیں۔ جس میں عدالت نے خود اپنے تصور اسلام کی (جسے وہ خود اسلام کہتی ہے) تشریح کرنے کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ علماء کس چیز کو اسلام کہتے ہیں اور اس میں کیا قباحتیں ہیں اور اس کے کیا نتائج ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ یہ بحث اس تحقیقات میں متعلق ہے یا غیرمتعلق۔ ہم اسے اس رپورٹ کا اہم ترین حصہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ خوش قسمتی سے بالواسطہ طور پر اس میں پہلی مرتبہ ہمارے سامنے ان لوگوں کا مقدمہ پوری تفصیل اور بڑے زوردار دلائل کے ساتھ آیا ہے۔ جو پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے مخالف ہیں۔ اس سے پہلے کسی کو اتنے زور کے ساتھ یہ خیال پیش کرنے کی جرأت نہ ہوئی تھی۔
عدالت کا اپنا تصور اسلام
ترتیب کلام کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے ہم خود عدالت کے اپنے پیش کردہ تصور اسلام سے واقف ہو جائیں۔ اس تصور کو اور اس سے پیدا ہونے والی ریاست کے تصور کو رپورٹ میں