پروان چڑھا اور بالآخر اس کی تکمیل خاتم النبیینﷺ کی بعثت پر ہوئی اور اﷲ تبارک وتعالیٰ کی آخری الہامی کتاب قرآن حکیم میں ’’اکملت لکم دینکم‘‘ فرماکر مہر ثبت کر دی کہ دین مکمل ہوچکا ہے اور پھر اس کی حفاظت تاقیامت کا ذمہ لیتے ہوئے خود خالق کائنات نے فرمایا: ’’انا لہ لحافظون‘‘ اس کے بعد یہ نظریہ قائم کرنا کہ دین کی تجدید کے لئے انبیاء کا سلسلہ تو ختم ہوچکا ہے۔ اب مجدد آتے رہیں گے۔
مرزاغلام احمد قادیانی اور دعویٰ محدث ونبی
شیعہ حضرات نے حضرت علیؓ اور ان کی اولاد میں سے گیارہ کو امام معصوم اور محدث قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ان سے بھی اﷲتبارک وتعالیٰ فرشتہ کے ذریعے کلام کرتا ہے۔ شیعہ حضرات کی کتاب حدیث الکافی جس کا ترجمہ الشافی کے نام پر طبع ہوچکا ہے۔ اس میں ذیل کی روایت ہے۔
’’زرارہ سے مروی ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے آیہ ’’کان رسولاً نبینا‘‘ کے متعلق سوال کیا اور پوچھا کہ نبی اور رسول میں کیا فرق ہے۔ فرمایا نبی وہ ہے جو فرشتہ کو خواب میں دیکھتا ہے۔ اس کی آواز سنتا ہے۔ لیکن ظاہر بظاہر حالت بیداری میں نہیں دیکھتا اور رسول وہ ہے جو آواز بھی سنتا ہے۔ خواب میں بھی دیکھتا اور ظاہر میں بھی۔ میں نے پوچھا امام کی منزلت کیا ہے۔ فرمایا وہ فرشتہ کی آواز سنتا ہے۔ مگر دیکھتا نہیں۔ پھر یہ آیت پڑھی وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث!‘‘ (الشافی جلد اوّل ص۲۰۳)
اور مرزاغلام احمد قادیانی نے بھی اپنے دعویٰ محدثیت میں اسی آیت کو پیش کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے دعویٰ کی بنیاد یہی روایات اہل تشیع ہیں۔ جن سے اس نے رہنمائی حاصل کی ہے۔
قرآن حکیم کی مندرجہ بالا آیت سورۂ الحج کی ۵۲ویں آیت ہے۔ جو درج ذیل ہے۔
’’وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنیٰ (الحج: ۵۲)‘‘ {اور ہم نے تجھ سے پہلے (اے محمدؐ) کوئی رسول نہیں بھیجا اور نہ نبی۔ مگر جب اس (کی قوم) نے آرزو کی۔}
قرآن کریم میں مذکورہ بالا الفاظ ہیں۔ لیکن محدث کے الفاظ نہیں۔ مگر اصول کافی (عربی) میں اس روایت کے نیچے حاشیہ میں لکھا ہے۔
’’ولا محدث انما ھو فی قراۃ اہل بیت علیہم السلام‘‘ کہ اہل بیت (علیؓ) اسی طرح اس آیت کو پڑھتے تھے۔