تکالیف کو دور کرتا ہے۔ دربار الٰہی سے انہیں ایک خاص اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے تمام مخلوقات پر ایک خصوصی امتیاز حاصل ہوتا ہے۔ ان کی اطاعت مخلوق پر فرض اور ان کی فرمانبرداری خدا کی اطاعت ہوتی ہے۔ ان کے مخالف اور معاند کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ ان کو قطعی جہنمی ناری قرار دیتا ہے۔ جس نے ان میں ذرا تفریق کی کسی کو مانا اور کسی کو ترک کردیا۔ اس کو لعین، مرتد، مردود، لعنتی قرار دیتا ہے۔
قرآن میں فرماتا ہے۔ ’’کل امن باﷲ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ لا نفرق بین احد منہم‘‘ یعنی تمام لوگ اﷲتعالیٰ اور اس کے فرشتوں اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو اس طرح مانتے ہیں کہ کسی میں فرق نہیں کرتے۔ چنانچہ جب سمجھ والا ہوتا ہے تو اس کو یہی مضمون سکھایا جاتا ہے۔ صفت ایمان رٹائی جاتی ہے کہ اس کی قوت ایمانی مستحکم ہو جائے اور تاکہ کسی فریبی کے دام تزویر میں آکر اپنے ایمان کو کمزور نہ کر دے۔ بہرصورت انبیاء کرام علیہم السلام کی بارگاہ رب العزت میں بے پناہ عزت ہے۔ احترام ہے۔ اعزاز ہے۔ مگر مرزائیوں کے مایۂ ناز نبی مرزاقادیانی ہیں کہ کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور ایمان سے علیحدہ ہوکر وہ کہے جارہے ہیں جو کہ مسلمان کی شان سے بعید ہے۔
جملہ انبیاء علیہم السلام کی توہین
(حقیقت الوحی ص۸۹ ج۲۲ ص۹۲) پر ہے۔ تمام دنیا میں کئی تخت اترے۔ پر میرا تخت (یعنی مرزاقادیانی کا) سب سے اونچا بچھایا گیا ہے۔ (استفتاء ص۸۷، خزائن ج۲۲ ص۸۱۵) پر ہے۔ ’’اتانی مالم یؤت احداً من العلمین‘‘ یعنی خدا نے جو مجھے دیا سارے جہاں میں سے کسی کو نہیں دیا۔
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۶، خزائن ج۲۲ ص۵۷۴) پر ہے۔ ’’بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے میرا جواب یہ ہے کہ اس نے میرا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے اس قدر معجزات دکھائے ہیں کہ بہت ہی کم نبی آئے ہیں۔ جنہوں نے اس قدر معجزات دکھائے ہوں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اس قدر معجزات کا دریا رواں کر دیا کہ باستثناء ہمارے نبیﷺ کے باقی انبیاء علیہم السلام میں ان کا ثبوت اس کثرت کے ساتھ قطعی اور یقینی طور پر محال ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۲۴، خزائن ج۱۹ ص۱۳۳) کوئی نبی نہیں جس نے کبھی نہ کبھی اپنے اجتہاد میں غلطی نہ کھائی ہو۔ (اربعین نمبر۲ ص۲۲، خزائن ج۱۷ ص۳۷۹) جس شخص کو مسیح موعود کر کے بیان فرمایا گیا ہے۔ وہ کچھ معمولی آدمی نہیں ہے۔ بلکہ خدا کی