لٹھم لٹھا کے بعد مولانا ظفر علی کی فوج ظفر موج اس طرح پسپا ہوئی کہ جوتے پگڑیاں وہیں چھوڑ گئی۔ زمیندار، احسان، انقلاب وغیرہ تمام مخالف اخباروں نے خطرناک سرخیاں دے کر خبریں شائع کیں۔ اس طرح کونے کونے کے احرار کو خبر پہنچ گئی کہ اب مرکز کی پالیسی یہ ہے کہ مخالفوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ غریبوں میں زخم کھانے اور زخم لگانے کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارے مخالفوں کو جلدی ہی معلوم ہوگیا کہ زدوخور کے معاملہ میں ابھی احرار کے مقابلہ کو مدت چاہئے۔ دو ہی ماہ کے عرصہ میں تمام مخالف ہتھیار ڈال کر دور جا کھڑے ہوئے۔ اب صرف اخباروں کے کالموں میں جھوٹ کے پلندے باندھ باندھ کر ہمیں ڈرانے لگے۔
احرار اور عدم تشدد
مجلس احرار بے شک سیاسیات میں عدم تشدد کی قائل ہے۔ یعنی حکومت کے تشدد کو صبر سے برداشت کیا جائے۔ اسی اصول سیاست کو ہم نے کئی ماہ شہید گنج کے ایجی ٹیشن میں بھی استعمال کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا ظفر علی خان اور ان کے رفقاء نے ہمارے خلاف غنڈہ گردی کی انتہاء کر دی کہ چلنا پھرنا مشکل ہوگیا۔ ہم پر تیزاب ڈالے گئے۔ ہمارے صبر نے ہمارے مخالفوں کا حوصلہ بہت بڑھا دیا۔ لیکن جب اس غندہ گردی کا نظام اور انتظام کے ساتھ مقابلہ کیا تو دوماہ کے اندر اندر مخالفت کے بادل چھٹ گئے اور صرف تحریر تک معاملہ محدود ہوگیا۔ ہم نے اپنا روزنامہ مجاہد نکال رکھا تھا۔ وہ ترکی بہ ترکی جواب دیتا رہا۔ پھر ہمارا اثر ورسوخ بڑھنے لگا۔ بالآخر حکومت نے اخبار کی ضمانت طلب کر لی۔ غریبوں کا یہ اخبار کسی بڑے مالی نقصان کو برداشت کرنے کے قابل نہ تھا۔ لاچار اسے بند کرنا پڑا۔ اب پھر مخالفوں کے لئے میدان صاف ہوگیا۔ پھر ہمارے خلاف جھوٹ کا طوفان اٹھایا گیا۔ ہمارے عدم تشدد کی پھبتیاں اڑانے لگے۔ احرار کے لئے عدم تشدد سیاسی پالیسی ہے مذہب نہیں۔ جب جان اور آبرو پر بن آئے تو ہر ہتھیار کا اٹھانا جائز ہے۔
جھوٹ کی دیوار گرنا شروع ہوگئی
مجلس اتحاد ملت آخر کیا ہے؟ اس میں وہ تمام عناصر شامل تھے جنہیں احرار کی مخالفت منظور تھی۔ مگر ان میں کوئی ذہنی اتحاد نہ تھا۔ زیادہ تر وہ اصحاب شامل تھے جو خالص کانگریسی ذہن رکھتے تھے اور مسلمانوں کی کسی اور جماعت کا عروج دیکھنا پسند نہ کرتے تھے۔ خصوصاً مجلس احرار کی سی غریبوں کی جماعت سے انہیں اسی لئے بیر تھا۔ وہ غریبوں کو منظم اور طاقتور دیکھ کر کچلے سرسانپ کی طرح پیچ وتاب کھاتے تھے۔ ظاہر ہے کوئی جماعت کسی اور جماعت کی مخالفت پر زندہ نہیں رہ