پیش نظر صرف یہ امر تھا کہ ان متعدد امکانات کی ایک واضح تصویر پیش کریں جو آئندہ رونما ہوسکتے ہیں۱؎۔ اگر اس نظریاتی الجھاؤ کے اسباب کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی نہ کر دی جائے جس نے ہنگاموں کی شدت ووسعت میں حصہ لیا ہے… اگر اس تحقیقات میں کوئی چیز قطعی طور پر کھل کر سامنے آگئی ہے تو وہ یہ ہے کہ آپ کا عوام الناس کو بس یہ یقین دلادینا شرط ہے کہ جس بات کے لئے ان سے کہا جارہا ہے۔ وہ مذہبی حیثیت سے حق ہے یا مذہب نے اس کا حکم دیا ہے۔ پھر آپ ان سے جو کچھ چاہیں کراسکتے ہیں۔ بغیر اس کے کہ وہ کسی ڈسپلن، وفاداری، شائستگی، اخلاق اور احساس مدنیت کا کوئی لحاظ کر جائیں۔‘‘
یہ حصہ پڑھ کر ہم یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ محترم عدالت نے اس تیس صفحات کی بحث (جو مقالہ کے ظرف سے بڑھ کر ایک مستقل کتاب کی حد تک پہنچ جاتی ہے) میں کہاں ان چیزوں کی نشان دہی کی ہے جو اسلامی ریاست کے نظریے میں یا اس کے اس تصور میں جسے عدالت علماء کا تصور کہتی ہے۔ ایسی موجود ہیں کہ عوام الناس کا اخلاق وشائستگی اور نظم وضبط کے سارے حدود کو پھاند جانا لازماً انہی کا نتیجہ قرار دیا جاسکے۔
پاکستان کا بنیادی تصور اور مطمح نظر
اب ہم پہلے اس بحث کو لیتے ہیں جو عدالت نے پاکستان کے بنیادی تصور اور مطمح نظر پر کی ہے۔ اس بحث میں ہمیں ایک عجیب چیز ملتی ہے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف متعدد مقامات پر ’’لیڈروں‘‘ کے ان بیانات، اعلانات اوروعدہ کا ذکر کیاجاتا ہے۔ جو انہوں نے تقسیم ہند سے پہلے اور بعد، پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے متعلق کیے تھے۔ مگر نہ جانے کیسے یہ سہو ہوگیا کہ کسی ایک جگہ اشارۃً بھی یہ ذکر نہیں ملتا کہ ایسے ’’لیڈروں‘‘ میں سب سے نمایاں اور سب سے بڑھ چڑھ کر قائداعظم مرحوم خود تھے۔ لیکن جہاں وطنی قومیت پر مبنی ایک جمہوری ولادینی ریاست کو پاکستان کا بنیادی تصور اور مطمح نظر قرار دینے کی بحث آئی ہے۔ اس موقع پر قائداعظم ’’بانی ٔپاکستان‘‘ کا حوالہ سلسلۂ کلام کی روح ورواں بنا نظر آتا ہے۔
ملاحظہ کیجئے! حسب ذیل عبارتوں میں جہاں پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا ذکر آیا ہے۔ اس چیز کو مقصد ونصب العین قرار دینے والے ’’لیڈروں‘‘ میں کہیں کسی ایک جگہ بھی قائداعظم کا مذکور ہے؟
۱؎ کیا اس عدالت کو مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینے کا کام بھی سپرد کیا گیا تھا؟