ہے۔ وہ جائز ہے یا نہیں، قانون کے مطابق ہے یا نہیں۔ بجا ہے یا بے جا۔ پھر اس کا لازماً یہ حق بھی ہونا چاہئے کہ ایک ناجائز، خلاف قانون اور بیجا حکم کو ماننے سے وہ انکار کر دے۔ یہ ذاتی صوابدید، اور نافرمانی کا حق اگر اسے نہ دیا جائے تو پھر یہ بات سخت ظلم ہوگی کہ ناصواب سمجھتے ہوئے جب وہ مجبوراً اپنے حکام بالا کے احکام کی تعمیل کرے تو ایک عدالت اسے اس فعل کے لئے شخصی طور پر ذمہ دار ٹھہرا کر سزا دے۔ اگر یہ قاعدہ درست تسلیم کر لیا جائے تو مولانا ابوالحسنات کے قول پر اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ہم ایک مثال دے کر پوچھتے ہیں۔ بالفرض ایک سپاہی کو اس کا افسر بالادست یہ ہدایت کرتا ہے کہ اگر عدالت استغاثے کے خلاف فیصلہ کر دے تو فوراً اس کو گولی سے اڑا دینا۔ فرمائیے! اس سپاہی کو اس حکم کی تعمیل کرنی چاہئے یا اطاعت سے انکار کر دینا چاہئے؟ اگر انکار کرنا چاہئے تو بروقت یہ فیصلہ کون کرے گا کہ یہ فعل ناجائز ہے؟ خود سپاہی یا کوئی اور ؟
اس سلسلہ میں اتنی گذارش اور ہے کہ دنیا میں ظالموں اور جباروں کو جن چیزوں نے کسی نہ کسی حد پر جاکر روک دیا ہے۔ ان میں سے ایک اہم چیز یہ ہے کہ جن سپاہیوں اور دوسرے ملازموں کے ذریعہ سے وہ اپنے احکام نافذ کرتے تھے۔ وہ بالکل مشین کے بنے ہوئے آدمی نہ تھے۔ بہرحال دل، دماغ اور کچھ نہ کچھ ضمیر رکھنے والے انسان تھے اور کوئی نہ کوئی ان کا اپنا مذہب اور اخلاقی نظریہ بھی ہوتا تھا۔ اگر ظالموں کو یہ خوف نہ ہوتا کہ جن لوگوں سے وہ کام لے رہے ہیں۔ ان کا ضمیر کسی حد پر جاکر اطاعت سے منحرف ہوجائے گا تو جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا ہے۔ شاید اس سے ہزارگنا زیادہ کر دکھاتے۔ حکومت کو خالص فرعونیت میں تبدیل ہو جانے سے روکنے والی آخری چیز اگر کوئی ہے تو یہی کہ اس کو ایسے سپاہی اور کارکن نہ مل سکیں۔ جن کے لئے دنیا میں کوئی چیز بھی مقدس اور قابل احترام نہ ہو اور جو پیٹ کی خاطر ہر برے سے برا کام کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ اس طرح کی دو ٹانگوں پر چلنے والی مشینیں جس حکومت کو مل جائیں۔ وہ حکومت نہیں، زمین پر خدا کا عذاب ہے۔
خلاصۂ کلام
اسلام اور اسلامی ریاست کے موضوع پر اس مقالے کو ختم کرتے ہوئے عدالت نے اپنے خیالات کا جو خلاصہ پیش کیا ہے۔ وہ اس کے اپنے الفاظ میں یہ ہے: ’’پاکستان اگرچہ اسلامی ریاست نہیں ہے۔ مگر عام آدمی اس کو ایسا ہی سمجھ رہا ہے۔ اس یقین کو مزید تقویت اسلام اور اسلامی ریاست کے لئے اس پیہم چیخ پکار سے پہنچی ہے جو قیام پاکستان کے وقت سے ہر طرف