شرم بات ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر بداخلاقی میں گرفتار ہو اور درشت بات کا ذرہ بھی متحمل نہ ہوسکے اور جو امام زمان کہلا کر ایسی کچی طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ ادنیٰ بات میں جھاگ لائے۔ آنکھیں نیلی پیلی ہوں۔ وہ کسی طرح امام زمان نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس آیت ’’انک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ کا پورے طور پر صادق آجانا ضروری ہے۔‘‘
مرزاقادیانی نے اپنی تعریف یوں کی ہے
(ضرورت امام ص۲۴، خزائن ج۱۳ ص۴۹۵) پر لکھتے ہیں۔ ’’امام الزمان میں ہوں اور یاد رہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی ورسول ومحدث مجددیت سب داخل ہیں۔ مجھ میں خداتعالیٰ نے وہ علامتیں اور شرطیں جمع کی ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۲ ص۸، خزائن ج۱۷ ص۳۵۵) ’’خلقت لک لیلاً ونہاراً اعمل ماشئت فانی فدغفرت لک‘‘ (ص۲۰، خزائن ج۱۷ ص۳۶۸) پر یوں ہے۔ تیرے لئے میں نے دن رات کو پیدا کیا تو جو چاہے کہہ کہ تو مغفور ہے۔
(اربعین ص۲۲۰، خزائن ج۱۷ ص۳۶۹) میں ہے۔ جس انسان کو مسیح موعود کر کے بیان فرمایا گیا ہے۔ وہ کچھ معمولی آدمی نہیں ہے۔ بلکہ خدا کی کتابوں میں اس کی عزت انبیاء علیہم السلام کے ہم پہلو رکھی گئی ہے۔
(اربعین نمبر۳ ص۲۲، خزائن ج۱۷ ص۴۰۹) سو اس امت میں وہ ایک شخص میں ہی ہوں۔ جس کو اپنے نبی کریم کے نمونہ پر وحی اﷲ پانے میں تیس برس کی مدت دی گئی ہے اور تیس برس یہ سلسلہ وحی کا جاری رکھاگیا ہے۔ جس طرح آنحضرتﷺ کی وحی تھی۔ اسی طرح میری وحی ہے۔‘‘ (نمونہ کا لفظ ملحوظ ہو کہ نہ صرف بڑائی بلکہ نبوت کا دعویٰ صریح ہے)
مرزاقادیانی کا وجود کیا ثابت ہوا؟
(دافع البلاء ص۷، خزائن ج۱۸ ص۲۲۷) پر ہے۔ ’’خدا ایسا نہیں کہ قادیان کے لوگوں کو عذاب دے۔ حالانکہ تو ان میں رہتا ہے۔ وہ اس گاؤں کو طاعون کی دست وبرد وتباہی سے بچائے گا۔ اگر تیرا پاس مجھے نہ ہوتا اور اکرام مدنظر نہ ہوتا تو میں اس گاؤں کو ہلاک کر دیتا۔ میں رحمن ہوں جو دکھ کو دور کرنے والا ہوں۔ میرے رسولوں کے میرے پاس کچھ خوف اور غم نہیں۔ میں نگاہ رکھنے والا ہوں۔ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اس کو ملامت کروںگا۔ جو میرے رسول کو ملامت کرتا ہے۔‘‘