خود تفتیش کر کے جواب دوں گا اور تم یہ بتلاؤ کہ تم اس مقدمے میں کس حیثیت سے پیش ہوسکتے ہو۔ نہ ہی تو تم موقعہ کے گواہ ہو اور نہ ہی کوئی قانون دان کہ چٹھی رساں کی وکالت کر سکو۔ لہٰذا تمہارے آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس تحریر کے لہجہ سے میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ سرکاری عدالتوں میں بھی اتنی سختی سے کام نہیں لیا جاتا کہ سوائے گواہوں اور وکیلوں کے کوئی کمرہ عدالت میں نہ جاوے۔ مگر یہ قادیانی عدالت تھی۔ میں نے اس کا جواب خاموشی سے دیا اور غریب چٹھی رساں کا بھی کچھ نہ بنا۔
قادیان میں انجمن حمایت الاسلام
اس دفعہ بھی مسجد میں جمعہ میں ہی پڑھایا کرتا اور مسجد میں بھی اب خاصی رونق ہو جاتی تھی۔ مسلمانوں میں بیداری کے کچھ آثار پیدا ہو چکے تھے۔ ہم نے وہاں انجمن حمایت الاسلام کی بنیاد ڈالی۔ قاضی عنایت اﷲ صاحب صدر مقرر ہوئے۔ مہرالدین سیکرٹری علیٰ ہذا القیاس خزانچی وغیرہ، عیدالاضحی کا موقعہ قریب تھا۔ خیال ہوا کہ اس موقعہ پر چندہ اکٹھا کر کے اپنے علماء کو بلوا کر جلسہ کیا جاوے کہ وہ ہمیں ہمارے صحیح عقائد سے آگاہ کریں۔ عید کے روز نصف شب سے بارش ہوئی اور متواتر صبح تک ہوتی رہی۔ ہماری مسجد چھوٹی تھی۔ جس میں عید کی نماز کی گنجائش مشکل تھی۔ مرزامحمود قادیانی نے بارش کی وجہ سے بجائے اس ہماری عید گاہ کے جس پر انہوں نے جابرانہ قبضہ کر رکھا تھا۔ عید اپنی عبادت گاہ اقصیٰ میں پڑھائی۔ ان کا عید کی نماز پڑھنا تھا کہ زور کی آندھی آئی، بادل چھٹ گئے، موسم نہایت خوشگوار ہو گیا۔ لہٰذا ہم نے اسی عید گاہ میں نماز پڑھی۔ بیرونجات سے اس قدر نمازی اکٹھے ہوئے کہ مسلمانوں کا اتنا ہجوم قادیان میں اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے عید کی نماز پڑھائی اور انجمن کے مقاصد بیان کر کے چندہ کی اپیل کی۔ قریباً ایک سو روپیہ تو وہاں اکٹھا ہوگیا۔ چند روز کی کوشش سے تقریباً چار صد روپیہ جمع ہوگیا۔ حسن اتفاق سے گورداسپور میں ایک جلسہ منعقد ہورہا تھا۔ جس میں علاوہ علمائے کرام کے اور بزرگان دین بھی شمولیت کر رہے تھے۔ مجھے احباب نے مجبور کیا کہ میں ان کے ساتھ وہاں چلوں اور وہیں قادیان کے جلسہ کے متعلق بھی ان لوگوں سے مشورہ کر کے ان کو دعوت دی جائے۔ میں نے محکمہ سے پانچ روز کی رخصت لی اور دوستوں کے ساتھ گورداسپور پہنچا۔ وہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ میرے محسن وکرم فرما حاجی حرمین الشریفین جناب پیر جماعت علی شاہ صاحب علی پوری بھی تشریف فرما ہیں۔ جب میں امرتسر میں دسویں جماعت میں تعلیم پاتا تھا۔ میرے بزرگ اور رشتہ دار مولانا سید احمد علی صاحب مسلم ہائی سکول میں شعبہ دینیات کے مدرس اعلیٰ تھے۔ ان کے تعلقات حضرت موصوف