پس اس رپورٹ کو بھی ایک علمی کام سمجھا جانا چاہئے اور اس پر ہونے والے تبصروں کو بھی اسی لحاظ سے دیکھنا چاہئے کہ یہ محض ایک علمی خدمت ہیں۔ جس طرح رپورٹ کے مصنفین ملک کے خیرخواہوں کی حیثیت سے سوچتے ہیں۔ اسی طرح اس پر تبصرہ کرنے والے بھی ملک کے خیرخواہ ہوسکتے ہیں۔
تبصرے کے تین حصے
پہلے حصے میں رپورٹ کے ان مباحث پر نظر ڈالی جائے گی۔ جو براہ راست ان تین معاملات سے متعلق ہیں جن کی تحقیق عدالت کے سپرد کی گئی تھی۔
دوسرے حصے میں ان مباحث پر تبصرہ کیا جائے گا جو اگرچہ سپرد کردہ معاملات کے حدود میں نہیں آتے۔ تاہم رپورٹ میں قلمبند کئے گئے ہیں۔
تیسرے حصے میں اس امر سے بحث کی جائے گی کہ اس رپورٹ نے اس اصل مسئلے کو جس پر پنجاب میں اتنے بڑے ہنگامے برپا ہوئے کچھ سلجھایا ہے یا گول مول چھوڑ دیا ہے۔ یا اور الٹا الجھا کر رکھ دیا ہے۔
حصہ اوّل
سپرد کردہ معاملات کے متعلق رپورٹ کے مباحث
ایک عدالت کے سپرد جو معاملات ازروئے قانون کئے گئے ہوں۔ ان پر اس کی تحقیقات اور اس کے اخذ کردہ نتائج مشکل ہی سے کسی آزادانہ تنقید وتبصرہ کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ اگر حدود قانون کے اندر اس کی تھوڑی بہت گنجائش ہے بھی، تو ہم اس ناکافی گنجائش سے کوئی فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے۔ اس لئے اس مضمون میں رپورٹ کے اس پہلو پر کوئی بحث نہیں کی جائے گی کہ سپرد کردہ معاملات کے متعلق عدالت نے جو فیصلے دئیے ہیں۔ ان میں کوئی خامی ہے یا نہیں اور ہے تو وہ کیا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں کچھ ضمنی مگر اہم نکات ایسے ہیں جن کو بیان کردینا ضروری ہے۔
غلط سرکاری اطلاعات
اوّلین چیز جو اس رپورٹ کا مطالعہ کرتے وقت ہر پڑھنے والے کو شدت سے محسوس ہوسکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ عدالت نے واقعات کے بیان اور پھر ان سے نتائج اخذ کرنے اور فیصلے