مرتبی ہی مراد لیں گے۔ ترکیب دلیل یوں ہوسکتی ہے۔ یہ رفع مقید یعنی بلحاظ قرائن وسیاق وسباق ہے اور جو ایسا رفع ہوتا ہے وہ مفید رفع جسمی کا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ رفع مفید رفع جسمی کا ہے۔ یہ عرفیہ عامہ ہے جو بالکل صحیح ہے اور اگر یہ کہاجائے کہ چونکہ یہ رفع مستعمل بالیٰ ہے اور جو رفع ایسا ہوتا ہے وہ رفع منزلت پر دلالت کرتا ہے تو لہٰذا یہ رفع رفع منزلت پر دلالت کرتا ہے۔ تو ظآہر ہے کہ اس میں دوام نہیں ہے۔ بلکہ یہ مطلقہ عامہ ہے۔ کیونکہ مطلقہ عامہ وہی قضیہ ہوا کرتا ہے جس میں حکم بالثبوت یا بالسلب فی وقت من اوقات وجود الموضوع کیا جائے اور یہاں اوقات ذات الموضوع مطابقت باصل واقعہ اور سیاق وسباق اور دلالت اور ارادہ یا عدم ان کا ہے۔ پس بعض اوقات الذات میں یعنی بوقت مطابقت باصل واقعہ وسیاق وسباق ودلالت وارادہ مراد رفع منزلت ہوگی اور ان کے علاوہ اوقات میں دلالت رفع منزلت پر ہر گز نہیں ہوگی اور طالبعلم جانتاہے کہ یہ قضیہ عرفیہ عامہ جو مفید دوام ہوتا ہے ہرگز نہیں۔ بلکہ مطلقہ عامہ ہے جو کہ ثبوت الحکم فی وقت من الاوقات کا مفید ہوتا ہے۔ کیونکہ عرفیہ عامہ میں حکم بدوام السلب ما بدوام الثبوت بشرط الوقت یعنی بوصف العنوان کیا جاتا ہے۔ جیسے کل کاتب متحرک الاصابع بالدوام مادام کاتباً اور قضیہ مذکورہ میں یعنی الرفع المستعمل بالیٰ میں وقت مطابقت یا عدم مطابقت وغیرہ کو وصف اور عنوان موضوع نہیں ٹھہرایا گیا اور نیز یہ شکل منتج نہیں ہے۔ ’’ہذا الرفع مستعمل بالیٰ وکل الرفع ہکذا فھو یدل علے الرفع الروحانی فہذا یدل علی الرفع الروحانی‘‘ کیونکہ کبریٰ اگر مطلقہ عامہ ہے تو نتیجہ وہی مطلقہ نکلا جو کہ دوام کا قطعاً مفید نہیں اور اگر عرفیہ عامہ ہے تو حد اوسط مکرر نہیں۔ کیونکہ صغریٰ میں محمول مطلقہ عامہ ہے اور کبریٰ میں موضوع عرفیہ عامہ ہے۔ گیارہواں یہ کہ اگر اس قاعدہ کو مان لیا جائے اور رفع سے مراد رفع روحی مراد رکھا جائے تو قرآن مجید اور احادیث صحیحہ اور اجماع کا خلاف لازم آتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کا انکار موجب کفر ہے۔ العیاذ باﷲ!
رفع الیٰ اﷲ سے مراد
رفع الیٰ اﷲ صعود الیٰ اﷲ اور عروج الیٰ اﷲ وغیرہ سے مراد حقیقی طور پر اﷲتعالیٰ کی ذات مقدسہ نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ کے لئے کوئی مکان مقرر نہیں کر سکتے۔ وہ لامکان ہے اور بلحاظ وصف علم کے اس کو تمام مکانوں اور مکینوں کی طرف نسبت برابر ہے۔ بلکہ مراد رفع الیٰ اﷲ سے آسمان کی طرف اٹھانا ہے جو کہ ملائکہ مقربین کامحل اور مقر ہے۔ قرآن مجید میں وارد ہے۔ ’’والیہ یصعد الکلم الطیب‘‘ یعنی اﷲتعالیٰ کی طرف کلمات طیبات چڑھ جاتے ہیں۔ ’’والعمل