گورداسپور نے بزبان انگریزی جو فیصلہ صادر کیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔
مرافعہ گزار سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کو تعزیرات ہند کی دفعہ ۱۵۳۔الف کے ماتحت مجرم قرار دیتے ہوئے ۔اس تقریر کی پاداش میںجو انہوں نے ۲۱؍اکتوبر ۱۹۳۴ء کو تبلیغ کانفرنس قادیان کے موقعہ پر کی۔ چھ ماہ کی قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے۔
مرزااور مرزائیت
مرافعہ گزار کے خلاف جو الزام عائد کیاگیا ہے۔ اس پر غور وخوض کرنے کے قبل چند ایسے حقائق وواقعات بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جن کا تعلق امور زیربحث سے ہے۔ آج سے تقریباً پچاس سال قبل قادیان کے ایک باشندے مسمّٰی غلام احمد نے دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا کہ میں مسیح موعود ہوں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اس نے اسقف اعظم کی حیثیت بھی اختیار کر لی اور ایک نئے فرقہ کی بنا ڈالی۔ جس کے ارکان اگرچہ مسلمان ہونے کے مدعی تھے۔ لیکن ان کے بعض عقائد واصول عام عقائد اسلامی سے بالکل متبائن تھے۔ اس فرقہ میں شامل ہونے والے لوگ قادیانی یا مرزائی یا احمدی کہلاتے ہیں اور ان کا مابہ الامتیاز یہ ہے کہ یہ لوگ فرقہ مرزائیہ کے بانی (مرزاغلام احمد قادیانی) کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔
قادیانیت کی تاریخ
بتدریج یہ تحریک ترقی کرنے لگی اور اس کے مقلدین کی تعداد چند ہزار تک پہنچ گئی۔ مسلمانوں کی طرف سے مخالفت ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کی اکثریت نے مرزاقادیانی کے دعاوی بلند بانگ خصوصاً اس کے دعاوی تفویق دینی پر بہت ناک منہ چڑھایا اور مرزاقادیانی نے ان لوگوں پر کفرکا جو الزام لگایا۔ اس کے جواب میں ان لوگوں نے بھی سخت لہجہ اختیارکیا۔مگرقادیانی حصار میں رہنے والے اس بیرونی تنقید سے کچھ بھی متاثر نہ ہوئے اور اپنے مستقر یعنی قادیان میں مزے سے ڈٹے رہے۔
قادیانیوں کا تمرّد اور شورہ پشتی
قادیانی مقابلتاً محفوظ تھے۔ اس حالت نے ان میں متمردانہ غرور پیدا کر دیا۔ انہوں نے اپنے دلائل دوسروں سے منوانے اور اپنی جماعت کو ترقی دینے کے لئے ایسے حربوں کا استعمال شروع کیا۔ جنہیں ناپسندیدہ کہا جائے گا۔ جن لوگوں نے قادیانیوں کی جماعت میں شامل ہونے