اور غیرمسلم ہیں۔ ان کو مسلمان سمجھنا یا ان سے اسلام کا سا سلوک کرنا حرام، اورقطعی ناقابل عفوجرم ہے۔ اگر آپ نے مشاہدہ کرنا ہو تو آپ بیانات علماء ربانی برارتداد قادیانی ج۱،۲ جو کہ عالی جناب ڈسٹرکٹ حج صاحب بہادر بہاولپور کی عدالت میں ہوئے۔ وغیرہ کا مطالعہ فرمائیں جس سے یہ مذکورہ بالا حقیقت یعنی مرزائی مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ واضح ہو جائے گی اور علماء اسلام کا اتفاق ہے کہ مرتد کسی اسلامی مراعات کا مستحق نہیں ہے۔ بلکہ ارتدادی فتنے کے پیش نظر وہ واجب القتل ہے۔
مرزائیت سے متعلق عدالتی فیصلہ
عالی جناب جج محمد اکبر خان صاحب بی اے ایل ایل بی ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاولنگر ریاست بہاولپور فیصلہ مقدمہ بہاولپور جلد ثالث ص۱۴۹ پر یوں منقول ہے۔ صاحب موصوف فرماتے ہیں۔ ’’لہٰذا ابتدائی تنقیحات جو ۴؍نومبر ۱۹۲۶ء کو عدالت منصفی احمد پورشرقیہ سے وضع کی گئی تھیں۔ بحق مدعیہ ثابت قرار دے جاکر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعاعلیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے۔‘‘
اسی طرح سول جج جیمس آباد کراچی جناب شیخ محمد رفیق گریچہ مسلمان عورت کا مرزائی سے نکاح کا فیصلہ سماعت فرمائیے۔
ترجمہ: آپ نے فرمایا… ’’مندرجہ بالا بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدعیہ جو ایک مسلمان عورت ہے کی شادی مدعا علیہ کے ساتھ جس نے شادی کے وقت خود اپنا قادیانی ہونا تسلیم کیا ہے اور اس طرح جو غیرمسلم قرار پایا ہے غیرمؤثر ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ مدعیہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مدعا علیہ کی بیوی نہیں۔‘‘ فیملی سوٹ نمبر۹، ۱۰۶۹ء مسماۃ امہ الہادی دختر سردار خان مدعیہ بنام حکیم نذیر احمد برق مدعا علیہ۔
اسی طرح اور متعدد عدالتی فیصلے لکھے جاسکتے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزائی جماعت مرتد ہے۔ غیرمسلم ہے۔ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اسلامی مراعات سے محروم ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو لازم ہے کہ مرزاقادیانی کیونکہ اسلام اور اسلامی مراعات میں شریک نہ کریں۔ بلکہ احتجاج کریں۔ ان کو کم ازکم ملکی معاملات میں ہی غیرمسلم اقلیت تصور کیا جائے۔
وما علینا الا البلاغ!