ٹوٹ گیا۔ جب میاں صاحب فوت ہوئے تو سر سکندر کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ پہلے تو وہ لیگ سے وابستہ اس لئے ہوگئے تھے کہ مسلمانوں میں میاں صاحب کا کامیاب مقابلہ ہو سکے۔ ان دنوں احرار سے دل بستگی کی بظاہر وجہ یہی تھی۔ لیکن اب انہیں آئینی کامیابی کے لئے میدان صاف نظر آیا اور مسٹر جناح کو دوھتا دیا اور احرار کو بھی ٹھینگا دکھایا۔
لیگ میں صرف شہری سرمایہ دار تھے۔ دیہات کی جامد آبادی کے سردار زمیندار انگریز افسروں کی ٹھوکر میں ہیں۔ دیہات میں کون زمیندار ہے جو سرکار کے اشارے کو سمجھ کر سرتابی کرے؟ اسمبلی میں ممبروں کی بڑی اکثریت دیہات سے آئی ہے۔ اس لئے سرسکندر کو لیگ کی چنداں پروا نہ تھی۔ معرکہ صرف احرار اور سرسکندر حیات کی یونینسٹ پارٹی سے تھا۔ کیونکہ بعض دیہاتی حلقوں میں احرار کا باوجود شہید گنج گرانے کی کامیاب چال کے اب بھی کافی اثر ورسوخ تھا۔ احرار اگرچہ آزادی ہند کے ان تھک سپاہی ہیں۔ مگر ہندو سرمایہ داروں کو اس کی پروا نہیں۔ وہ ہر حال میں مسلمان سرمایہ داروں کے ساتھ ہیں۔ احرار سے دونوں خائف تھے۔ اس لئے ہندووں کے اونچے طبقے کی ہمدردی سرسکندر کے ساتھ تھی۔
جعلی اشتہار بازی
جس طرح لیبر پارٹی کو گذشتہ الیکشن انگلستان کی انتخابی مہم میں تارے دیکھنے پڑے تھے۔ کیونکہ لیبر پارٹی پر بولشویکوں سے ساز باز کا افسانہ تراش کر اس کی اشاعت کی گئی تھی۔ اس طرح ہمارے خلاف شہید گنج کے سلسلہ میں مولانا مظہر علی کا میرے نام فرضی خط اشتہارات کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں شائع کیاگیا۔ اس سارے کام میں مرزائیوں کا ہاتھ کام کر رہا تھا۔ ان دنوں ہمارے خلاف قادیانی جماعت نے اخبارات کو خاص امداد دی۔ یہ اشتہار الیکشن کے عین ایک دن قبل شائع کیاگیا۔ جہاں احرار امیدوار کھڑے تھے۔ یہ اشتہار خاص طور پر تقسیم ہوا۔
میرا حلقہ انتخاب سرسکندر اور اس کے ساتھیوں کی توجہ کا مرکز رہا۔ ہمارا سب سے زیادہ زور ان حلقوں میں رہا جہاں مرزائی اور مرزائی امیدوار کھڑے تھے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ موجودہ اسمبلیوں سے پہلے جب صوبہ جات میں دو عملی تھی۔ اس وقت کی کونسلوں کے ابتدائی برسوں کے انتخاب میں گھوڑا گاڑی کا خرچ ناجائز تھا۔ اس لئے بعض غریب اور درمیانے طبقے کے لو گ بھی کامیاب ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کونسلوں میں انتہاء پسندوںکا زور ہوگیا۔ حکومت نے فوراً معاملہ کو بھانپ لیا اور غریب طبقے کو غریبوں کی نمائندگی سے محروم کرنے کے لئے انہوں نے موٹروں اور