ان ریمارکس کو پڑھتے ہوئے لوگ، ملکی اور غیرملکی بھی۔ یقینا اس سوچ میں پڑ جائیں گے کہ جس ملک کے اندر تمام کے تمام (دو افراد کے استثنیٰ کے ساتھ) سیاسی اور مذہبی کارکن ’’لٹیرے، طالع آزما‘‘ اور بے حیثیت آدمی ہوں۔ اس کے اور کس میدان اور شعبے میں نیک نیت اور باضمیر لوگ پائے جاتے ہوںگے۔ جہاں یہ طوفان فساد اتنا ہمہ گیر اور سر سے اونچا ہوگیا ہو۔ وہاں کتنے ایک ’’جزائر تقدس‘‘ بچے رہ گئے ہوںگے۔ اب اگر اس رپورٹ کو پڑھ کر دنیا یہ سمجھے کہ پاکستان لٹیروں اور بے ایمانوں کا ایک ملک ہے تو کیا اس سے ملک کی فلاح وبہبود کو فائدہ پہنچے گا؟
دوسری طرف بجائے خود یہ امر بھی قابل غور معلوم ہوتا ہے کہ آیا لوگوں کی عزتوں کی چھان بین بھی کارروائی سے متعلق اور سپرد شدہ معاملات کا اپنا تقاضا تھی اور اگر یہ نہ کی جاتی یا رپورٹ میں یہ حصے شامل نہ ہوتے تو کیا کارروائی میں کوئی خلا رہ جاتا؟ لیکن اس معاملے میں جب رپورٹ خاموش ہے تو ہر پڑھنے والا بھی خاموش رہ جائے گا۔ تشویش صرف اس چیز پر ہوتی ہے کہ اتنی بڑی ذمہ دارانہ رپورٹ جو اندرون ملک اور بیرون ملک ایک بڑے پیمانے پر پڑھی جائے گی اور جو ہزاروں کی تعداد میں پے در پے شائع ہوتی رہے گی۔ بلکہ آئندہ نسلوں کے ہاتھوں تک بھی پہنچے گی۔ اس میں جس فرد کے دامن عزت پر بھی کوئی دھبہ ایک مرتبہ لگ جائے گا اس کو دھونے کی کوئی تدبیر باقی نہیں ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی دھبہ غیرضروری یا ناروا طور پر لگ گیا ہو تو ا س کی تلافی کس شے سے ہوگی؟
لوگوں کے مسلک کی ترجمانی وتعبیر میں سہو
اس رپورٹ کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ بعض مقامات پر لوگوں کے مسلک اور اقوال اور افعال غلط مفہوم کا جامہ پہنے نگاہوں کے سامنے آتے ہیں۔ اس کی وجہ معلومات کی کمی ہو یا کسی طرح کا سہو۔ اب نتیجہ بہرحال یہ ہے کہ بعض لوگوں کے نظریہ ومسلک کی ایسی تعبیر سامنے آتی ہے یا کوئی ایسی بات ان سے منسوب ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ جو امر واقعہ سے کسی طرح مطابقت نہیں کھاتی۔ مثلاً صفحہ ۲۰۱پر ارشاد ہوتا ہے۔
’’جو جماعتیں اب ان تین مطالبات کو مذہبی بنیادوں پر تسلیم کرانے کے لئے شور مچارہی ہیں۔ ان میں سے اہم ترین جماعتیں سب کی سب اسلامی ریاستی کے تصور کی مخالف تھیں۔ جماعت اسلامی کے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تک یہ رائے رکھتے تھے کہ نئی مسلم ریاست اگر کبھی وجود میں آئی بھی تو اس کی شکل غیر دینی ریاست کی ہوگی۔‘‘