تابعین رحمہم اﷲ تعالیٰ اور حیات مسیح علیہ السلام
امام اعظم نعمان بن ثابتؓ (فقہ اکبر ص۱۶) ’’خروج الدجال ویاجوج وماجوج وطلوع الشمس من مغربہا ونزول عیسیٰ علیہ السلام من السماء وباقی علامات یوم القیمۃ علیٰ ما وردت بہ الاخبار الصحیحۃ حق کائن‘‘ یعنی دجال اور یاجوج وماجوج کا نکلنا اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور باقی تمام قیامت کی علامتیں جو کہ صحیح فرشتوں سے ثابت ہیں۔ بالکل حق ہیں اور وہ یقینا ہونے والی ہیں۔ یہ وہ امام ہیں جن کی تقلید کا مرزاقادیانی دم بھرتے ہیں اور ان کی فراست اور فہم کو باقی اماموں سے بڑھ کر مانتے ہیں۔ دیکھئے (ازالہ اوہام ج۲ ص۵۳۰،۵۳۱، خزائن ج۳ ص۵۳۵) میں لکھتے ہیں۔ ’’امام اعظم اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم وفراست اور فہم وروایت میں آئمہ باقی ثلاثہ سے افضل اور اعلیٰ تھے اور ان کی خداداد قوت اور قدرت فیصلہ بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت وعدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن کے سمجھنے میں ایک دست گاہ تھی۔‘‘ کئی باتیں ثابت ہوئیں۔
۱… آپ کی علمی ثقافت اور فہم وفراست باقی تین اماموں سے بڑھ کر تھیں۔
۲… آپ کو ثبوت اور عدم ثبوت میں کافی امتیاز تھا۔
۳… آپ کو معارف قرآنیہ میں ایک کامل دست گاہ تھی۔
۴… آپ مجتہد مطلق تھے۔
۵… جو آپ کا مذہب تھا وہی باقی اماموں کا مذہب تھا۔ کیونکہ جب اعلیٰ شخص نے ایک چیز کا اقرار کر لیا تو اس سے ادنیٰ شخض کو اس بات کا مان لینا ازبس ضروری ہے۔ پس نتیجہ صاف ہے کہ چاروں اماموں کا مذہب یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک اسی جسم سے زندہ ہیں اور قبل ازقیامت اتریں گے۔ وغیرہ وغیرہ! جیسا کہ تفصیل بھی ابھی آتی ہے۔
امام محمد بن ادریس الشافعی! آپ کا یہی مذہب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک حیات ہیں۔ اس لئے کہ آپ سے اعلیٰ یعنی امام اعظمؒ کا مذہب یہی ہے۔ دوسرا اس لئے کہ یہ شاگرد ہیں امام اعظم کے، اور ان کا مذہب اوپر بیان ہوچکا ہے کہ وہ حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں۔ لہٰذا یہ بھی اس بات کے معتقد ہوںگے۔ تیسرا اس لئے کہ اگر اس عقیدہ میں یہ مخالف ہوتے تو ضرور امام اعظمؒ کی مخالفت کرتے اور بالخصوص جبکہ ایک امر اعتقادی ہو تو کسی طرح سکوت جائز نہیں۔ پس اختلاف نہ کرنا زبردست دلیل ہے کہ اس عقیدہ میں سب امام اعظمؒ کے ساتھ متحد