بن الفضل ان المراد بقولہ وکہلاً بعد ان ینزل من اخر الزمان ویکلم الناس ویقتل الدجال‘‘ {یعنی مراد اﷲتعالیٰ کے اس قول یعنی کہلا سے یہ ہے کہ آخیر زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔ لوگوں سے کلام کریں گے اور دجال کو قتل کریںگے۔}
یہی مضمون (تفسیر فتح البیان ج۲ ص۴۴) میں ہے۔ ابن زید آپ فرماتے ہیں کہ: ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اترنا ہے۔
(تفسیر ابن جریر ج۲۵ ص۴۹، ضحاک) آپ فرماتے ہیں کہ: ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پیش تر دنیا میں اتریں گے۔
محدثین رحمہم اﷲ اور حیات مسیح علیہ السلام
حافظ ابوعبداﷲ البخاری (صحیح بخاری نزول عیسیٰ بن مریم کتاب ذکر الانبیاء ج۱ ص۴۹۰) میں ہے۔ ’’قال قال رسول اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً مقسطاً فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتیٰ لا یقبل احد وتکون السجدۃ والواحدۃ خیراً من الدنیا وما فیہا ثم فیقول ابوہریرۃ فاقروا ان شتم وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘
(درمنثور ج۲ ص۲۴۵) ’’اخرج البخاری فی تاریخہ عن عبداﷲ بن سلام قال یدفن عیسیٰ مع رسول اﷲﷺ وابے بکر وعمر ویکون قبرہ رابعاً‘‘
دونوں حدیثوں کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ حضرت عیسیٰ بن مریم ضرور تم میں حاکم وعادل بن کر آئیںگے۔ پس سولی کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریںگے اور لڑائی کو بند کریں گے اور مال کو اس قدر بہائیں گے کہ کوئی قبول نہ کرے گا اور ایک سجدہ دنیا وفیہا سے بہتر شمار ہوگا۔ پھر ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ تمہیں شک ہو تو یہ آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ پڑھ لو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آنحضرتﷺ کے مقبرہ میں آپؐ اور ابی بکرؓ وعمرؓ کے ساتھ دفن کئے جائیں گے اور آپ کی چوتھی قبر ہوگی۔
حضرات سامعین! یہ وہی بخاری ہے۔ جس کو مرزاقادیانی قرآن مجید کے بعد اصح الکتب مانتے ہیں۔ اس میں قرآن مجید کی رو سے مسیح علیہ السلام کی حیات اور نزول بعینہ ثابت ہے اور یہ بھی کہ مدینہ منورہ میں فوت ہوکر آنحضرتﷺ کے روضۂ مطہرہ میں مدفون ہوںگے۔ نہ یہ