اور اسے تمام فیصلوں اور اقدامات کا معیار مان لیاجاتا ہو۔ یہ تو صرف ہم ہی ہیں جنہوں نے اپنا حال اس زن بازاری کا ساکر رکھا ہے۔ جس کے لئے گھر والے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ساری اہمیت بس بازار کے تماشائیوں ہی کی ہے۔ رہا یہ بین الاقوامی کبوتر خانہ تو اس کے کبوتروں کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی طفلک ناداں ڈرتا جھجکتا اس کی طرف دیکھتا ہے تو یہ کبوتر بہت پھڑ پھڑاتے ہیں۔ مگر جب روس یا ہندوستان یا ایسے ہی کسی ملک کا کوئی بلاّ اس میں درانہ گھس آتا ہے تو سارے کبوتروں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
ساتویں دلیل کے متعلق ہم بس اتنا کہیں گے کہ اس ہندوستان کے سمجھوتوں کو بنائے استدلال نہ بنایا جاتا تو اچھا تھا۔ جس کا دامن کشمیر اور جونا گڑھ اور نہری پانی اور نہ معلوم ایسے ہی کتنے معاملات کے متعلق سمجھوتوں کے خون سے آلودہ ہے اور جس کا طرز عمل خود اس سمجھوتے کے معاملے میں بھی ساری دنیا کو معلوم ہے۔ جس کا رپورٹ کی بحث میں حوالہ دیا گیا ہے۔ ہمارے لئے شاید اس سے زیادہ بدقسمتی کا کوئی اور وقت نہ ہوگا۔ جب ہماری کابینہ کی تشکیل اور ترکیب تک میں ہندوستان کو دخل دینے کی اجازت دے دی جائے گی۔ (اور ہوسکتا ہے کہ اس کے لئے سند اس رپورٹ سے پکڑی جائے) یہاں پھر رپورٹ کے قاری کو ذہن وفکر کے یک طرفہ جھکاؤ کی ایک جھلک سی محسوس ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاملات کا گوشہ اتنا زیادہ اہمیت پاجاتا ہے کہ دوسرے گوشوں کی اہمیت سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ حالانکہ بحث کی ایسی غیر محتاط پیش قدمی سے نجات کیا کیا اثرات ونتائج وسیع پیمانے پر نمودار ہوسکتے ہیں۔
قرارداد مقاصد پر اظہار رائے
مطالبات کے حسن وقبح کی بحث اور آگے چل کر قرارداد مقاصد کے حسن وقبح کی بحث تک پہنچتی ہے۔ بظاہر جس منطقی قیاس پر بحث کا یہ ارتقاء مبنی ہے وہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہنگامے مطالبات کی پیداوار ہیں اور مطالبات کو قرارداد مقاصد نے جنم دیا ہے۔ لہٰذا فتنے کی اصل جڑ قرارداد مقاصد ہے اور اس کے اس تصور کو مٹانے کی ضرورت ہے کہ اس نے فی الواقع یہاں اسلامی ریاست کی کوئی بنیاد رکھی ہے۔ عدالت کے اپنے الفاظ اس مضمون کو یوں ادا کرتے ہیں۔
’’تقریباً تمام علماء نے جن سے ہم نے اس موضوع پر سوالات کئے۔ یہ بتایا ہے کہ یہ مطالبات اس قرارداد مقاصد کا نتیجہ ہیں جو دستور ساز اسمبلی نے ۱۲؍مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور کی تھی اور