دوم… حضرت عائشہؓ کا اس ’’لا نبی بعدہ‘‘ کے روکنے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی طرف اشارہ ہے۔ نہ کہ نئی نبوت کا اجرائ۔ چنانچہ تکملہ مجمع البحار میں اسی مقام میں اس کی تصریح کی ہے۔ مگر مغالطہ دینا مرزائیوں کی فطرت ہے۔ اس لئے تکملہ کی پوری عبارت نقل نہیں کی۔
البتہ پاکٹ بک مرزائیہ میں پوری عبارت نقل کی ہے۔ لیکن اس کا مطلب غلط لیا ہے،۔ تکملہ کی پوری عبارت یہ ہے۔
’’قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولوا لا نبی بعدہ ہذا ناظر الیٰ نزول عیسیٰ وھذا ایضا لا ینافی حدیث لا نبی بعدی لا نہ اراد لا نبی ینسخ شرعہ (تکملہ ص۸۵)‘‘ {حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔ خاتم الانبیاء کہو اور لا نبی بعدہ یہ نہ کہو۔ حضرت عائشہؓ کا فرمان نزول عیسیٰ علیہ السلام کی بنا پر ہے اور نزول عیسیٰ علیہ السلام حدیث لا نبی بعدی (میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے) کے بھی خلاف نہیں۔ کیونکہ اس حدیث سے مراد ہے کہ کوئی ایسا نبی آپؐ کے بعد نہیں۔ جو آپؐ کی شریعت کو منسوخ کرے۔} چونکہ عیسیٰ علیہ السلام آپؐ کی شریعت کو منسوخ نہیں کریں گے۔ بلکہ اس کو جاری کریں گے۔ اس لئے نزول عیسیٰ اس حدیث کے خلاف نہیں اور اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ نیا نبی جو صاحب شریعت نہ ہو۔ وہ آسکتا ہے۔
جیسے کہ پاکٹ بک مرزائیہ والے کا خیال ہے۔ بلکہ حدیث کا مطلب کہ صاحب شریعت نبی نہیں آئے گا۔ صرف نزول عیسیٰ علیہ السلام کی وجہ سے ہے نہ کہ نئی نبوت کی خاطر۔ اسی لئے بعض علماء نے اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ میرے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔ یعنی نیا نبی نہیں آئے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام چونکہ پہلے کے نبی ہیں۔ اس لئے ان کا نزول اس حدیث کے خلاف نہیں۔ ملاحظہ ہو تفسیر کشاف ج۲ ص۲۱۵) وغیرہ خلاصہ یہ کہ اس حدیث کے مطلب میں صرف نزول عیسیٰ علیہ السلام کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اجراء نبوت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ علاوہ اس کے اگر نبوت کا سلسلہ جاری ہوتا تو پھر نزول عیسیٰ علیہ السلام کی کیا ضرورت تھی؟ الغرض یہ سب مرزائیوں کی مغالطہ دہی ہے۔ ورنہ تکملہ کی عبارت کا مطلب بالکل واضح ہے۔
حضرت علیؓ اور مسئلہ ختم نبوت
ایسے ہی الفضل کے اس نمبر میں تفسیر درمنثور کے حوالہ سے حضرت علیؓ کا قول ذکر کیا ہے کہ ابوعبدالرحمن بن السلمیؓ، حسنؓ، حسینؓ کو قرآن پڑھا رہے تھے تو حضرت علیؓ نے ان کو فرمایا کہ خاتم النبیین میں خاتم کو ت کی زبر کے ساتھ پڑھاؤ اور اس سے حضرت علیؓ کا مقصد یہ تھا کہ خاتم زیر کے