قادیانی مسئلے کا بچہ ابھی زندہ ہے
اب دیکھنا یہ ہے کہ ۶؍مارچ ۱۹۵۳ء کی پوزیشن اگر یہ تھی تو اس کے بعد کون سا خاص واقعہ ایسا پیش ہے جس کی بناء پر یہ سمجھا جا سکے کہ وہ مسئلہ ختم ہوگیا۔ جس پر یہ سارے ہنگامے ہوئے تھے اور وہ مطالبات اپنی موت آپ مر گئے۔ جن کو لے کر قوم کے یہ سارے عناصر اٹھ کھڑے ہوئے تھے؟ ظاہر ہے کہ کوئی واقعہ اس کے سوا پیش نہیں آیا کہ حکومت نے مارشل لاء لگا کر اور سوا دو مہینے تک عوام کے سینے پر مونگ دل کر لوگوں کو خوف زدہ کر دیا۱؎۔ مگر کیا وہ اسباب ختم ہوگئے جن سے ایک طبعی نتیجہ کے طور پر قادیانی مسلم نزاع برپا ہوئی؟ کیا وہ وجوہ ختم ہوگئے جنہوں نے اس دینیاتی اختلاف کو پنجاب کے گاؤں گاؤں تک میں ایک تلخ معاشرتی کشمکش بنادیا؟ کیا وہ محرکات ختم ہوگئے۔ جن کی بدولت جھگڑا منڈیوں اور سرکاری محکموں اور زرعی، صنعتی اور تجارتی اداروں تک میں پھیل گیا؟ کیا عوام کے احساسات اور ان کے خیالات وجذبات کو دنیا میں کبھی رائفلوں اور کورٹ مارشلوں سے بدلا جاسکا ہے۔ جو یہاں ان چیزوں سے اس معجزے کی توقع کی جائے۔
ان سوالات کے جواب ہمیں دینے کی ضرورت نہیں۔ عدالت خود کہتی ہے کہ: ’’یہ بچہ (یعنی قادیانی مسئلے کا فتنہ خیز بچہ) ابھی زندہ ہے اور منتظر ہے کہ کوئی آکر اسے اٹھالے۔‘‘
(رپورٹ ص۳۸۶)
اس مسئلے کے حل میں عدالت کا حصہ
بالکل ٹھیک ہے۔ مگر اس بچے کو ٹھکانے لگانے کے لئے بھی اس رپورٹ نے کوئی بندوبست تجویز کیا؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ:
۱… اس نے اس بچے کو اسلامی ریاست چاہنے والوں اور نہ چاہنے والوں کی نظریاتی کشمکش کا ایک لخت جگر ثابت کر دیا اور اب اس چیز کے نتیجے میں اس بچے کے خلاف تمام ان مخالف مذہب طبقوں کا تعصب برسر عمل آسکے گا۔ جو اس وقت ملک کے نظم ونسق اور اس کی سیاسی باگ ڈور پر قابض ہیں۔(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) لیکن تعلیم یافتہ طبقے کی بہت بڑی تعداد جو تخیلات کالجوں سے مغربی فلسفۂ قومیت کی تعلیم کے زیر اثر لے کر نکلی تھی۔ ان کی بناء پر یک قومی نظریہ اس کی رگ وپے میں اتر گیا تھا اور دو قومی نظریہ اس کے دماغ میں اتارنے کے لئے برسوں دلائل دینے کی ضرورت پیش آئی تھی۔
۱؎ یا مزید تغیّر یہ آیا ہے کہ مختلف لوگوں کی حرکت اور تحریر وتقریر آئے دن سیفٹی ایکٹ وغیرہ کے تحت پابندیاں لگتی رہتی ہیں۔