جوں توں کر کے بٹالہ پہنچے جو قیامت ان پر گذری تھی اس کی داستان درد لوگوں کو سنائی۔ پھر کئی سال کسی کا حوصلہ نہ ہوا کہ کوئی عالم دین قادیان مارچ کرے۔
احرار کا قادیان میں داخلہ … اکتوبر ۱۹۳۴ء
جس طرح بے کسی کشمیر کی غریب آبادی کی مصیبتوں کو دیکھ کر فریادوفغاں کر رہی تھی اور ہم اس کے دردناک نالوں کو سن کر اٹھے۔ اسی طرح ہم نے قادیان کے تباہ حال اور ستائے ہوئے ہندوؤں اور مسلمانوں کی پکار کو سن کر کان کھڑے کئے۔ قادیان کے مرزائی سرمایہ داروں کو یقین تھا کہ زمین کے دردناک نالے آسمان کے خداوند تک نہیں پہنچتے۔ انہیں دنیا کے خداوندوں کا سہارا تھا اور وہ من مانی کارروائیاں اسی لئے کرتے تھے کہ حکام تک ان کی رسائی تھی۔ لیکن دیکھو یوں معلوم ہوا کہ گویا آسمان کے خداوند نے کہا کہ اے ارباب غرور یہ تمہاری متشددانہ زندگی کی انجیل کے اوراق اب بند ہو جانے چاہئیں۔ پس اس نے جھوٹے مسیحا اور اس کے حواریوں کے مظالم کو روکنے کے لئے ایک خاک نشینوں کی جماعت کے دل میں تحریک کی۔ جس نے چند نوجوان والنٹیروں کو قادیان میں بھیجا۔ تاکہ مسلمانوں کی مساجد میں جاکر نماز ادا کریں۔ لیکن ایسا نہ کرنا کہ کہیں مرزائیوں کی عبادت گاہ میں جاگھسو اور مرزائیوں کو تم پر تشدد کا معقول بہانہ مل جائے۔ لیکن قادیانی مرزائیوں کو مسلمانوں کی مسجد میں آوازۂ اذان کی برداشت کہاں تھی؟ مسلمانوں پر ان کا لاٹھی کا ہاتھ رواں تھاہی، آئے اور لاٹھی کے جوہر دکھانے لگے۔ بے دردوں نے لاٹھیوں سے احرار والنٹیروں کو اس قدر پیٹا کہ پناہ بخدا۔ بزدل دشمن قابو پاکر ایسے ہی غیر شریفانہ مظاہرے کرتا ہے۔ والنٹیر جان سے بچ گئے۔ مگر مدت تک ہسپتال میں پڑے رہے۔ اس کے بعد احرار نے بٹالہ میں کانفرنس کر کے حکومت اور قادیانی ارباب اقتدارکو للکارا۔ مرزائیوں اور سرکار نے سمجھا کہ احرار کی خاک میں شعلے کہاں۔ پروا تک نہ کی، کسی مرزائی کی گرفتاری عمل میں نہ آئی۔ لیکن اتنا ہوا کہ رپورٹروں نے حکام اور مرزائی صاحبان سے کہہ دیا کہ احرار کی کشمیرکی یلغار کو سامنے رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ گرد میں سوار نکل آئیں۔ احرار جس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ پھر پیچھا نہیں چھوڑتے اور ہموار کر کے دم لیتے ہیں۔ مارکھا کے چپکے بیٹھ جانا شریفوں کا شیوہ نہیں۔ اس لئے جولائی ۱۹۳۰ میں امرتسر میں ورکنگ کمیٹی ہوئی۔ فیصلہ ہوا کہ جو ہو سو ہو۔ احرار کا قادیان میں مستقل دفتر کھولنا چاہئے۔ معلوم کیا کہ ہم میں کون ہے۔ جو علم میں پورا اور عمل میں پختہ ہے۔ جو موت کی مطلق پروانہ کرے اور