سخت بغاوت برپا ہوئی تھی کہ سوا دو مہینے تک کوئی جج اور منصف اپنی کرسی پر نہ بیٹھ سکتا تھا؟ اس سلسلے میں یہ جاننا شدید خالی از دلچسپی نہ ہو کہ مارشل لاء کے پورے دوران میں عدالتیں برابر کھلی رہی ہیں اور رپورٹ کے اپنے بیان کے مطابق ’’بغاوت‘‘ کا زور بس اتنا تھا کہ فوج نے آکر ۶گھنٹے کے اندر صورتحال کو قابو میں کر لیا۔ (رپورٹ ص۳۶۴)
حصہ دوم
وہ معاملات جو سپرد کردہ امور سے بظاہر غیر متعلق معلوم ہوتے ہیں
اوپر حصہ اوّل کی آخری سطور میں ہم یہ دکھا چکے ہیں کہ عدالت نے تین ایسے معاملات کو صاف کئے بغیر چھوڑ دیا ہے جو تحقیقات کی شرائط تحویل (Terms of Reference) کے دائرے میں آتے تھے۔ اب ہم یہ دکھائیں گے کہ عدالت نے بعض ایسے معاملات پر پورے زور کے ساتھ اور بڑی تفصیل کے ساتھ اظہار رائے کیا ہے۔ جو رپورٹ کے ایک عام قاری کو شرائط تحویل سے باہر معلوم ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں رپورٹ خود پوری طرح یہ واضح نہیں کر سکی کہ وہ کس بناء پر اس تحقیقات میں متعلق (Relecent) قرار پاتے ہیں۔ ہم ان سے ایک ایک مسئلے کو لے کر اس پر عدالت کی آراء نقل کریں گے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے جائیں گے کہ یہ آراء کہاں تک وزنی ہیں۔
مطالبات پر عدالت کی بحث
ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ عدالت کے سپرد جن معاملات کی تحقیقات کا کام کیاگیا تھا۔ ان میں یہ سوال شامل نہ تھا کہ وہ مطالبات جن کی حمایت میں مخالف قادیانیت ایجی ٹیشن شروع ہوا۔ بجائے خود صحیح تھے یا نہ تھے اور ان کے قبول کر لینے کا ملک پر کیا اثر پڑتا۔ لیکن رپورٹ میں عدالت کا یہ احساس باربار ہمارے سامنے آتا ہے کہ ان مطالبات کا مقابلہ نظریاتی حیثیت سے کرنا ضروری تھا اور حکومت کا یہ پہلو بہت کمزور تھا کہ وہ انہیں غلط اور نقصان دہ ثابت نہ کر سکی۔ چنانچہ ص۱۴۵ پر عدالت یہ بتاتی ہے کہ جب ۲۲؍جنوری کو ڈائرکٹ ایکشن کا الٹی میٹم دیا گیا تو پنجاب میں سول نافرمانی کا کیا سروسامان تیار تھا اور اس سلسلے میں وہ یہ چیزیں شمار کرتی ہے: ’’رضا کار، فنڈس، کارروائی کے مراکز، مجالس عمل، ڈکٹیٹروں کی فہرستیں، ایک آبادی جو حکومت کے خلاف نفرت سے بھری ہوئی تھی اور کسی قسم کی نظریاتی مدافعت کا قطعی موجود نہ ہونا۔‘‘