’’میں نے سترہ سال مسلسل تقریروں سے ثبوت پیش کئے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ میں سرکار انگریزی کا بدل وجان خیرخواہ ہوں اور میں ایک شخص امن دوست ہوں اور اطاعت گورنمنٹ ہمدردی بندگان خدا کی میرا اصول ہے اور یہ وہی اصول ہے جو میرے مریدوں کی شرائط بیعت میں داخل ہے۔ چنانچہ پرچہ شرائط بیعت جو ہمیشہ مریدوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کی دفعہ چہارم میں ان ہی باتوں کی تصریح ہے۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۰، گورنمنٹ عالیہ قیصرہ ہند، خزائن ج۱۳ ص۱۰)
مرزاقادیانی اور مسئلہ جہاد
’’گورنمنٹ انگلینڈ خدا کی نعمتوں سے ایک نعمت ہے۔ یہ کہ ایک عظیم الشان رحمت ہے۔ یہ سلطنت مسلمانوں کے لئے آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہے۔ خداوند کریم نے اس سلطنت کو مسلمانوں کے لئے ایک باران رحمت بھیجا۔ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا حرام ہے۔‘‘
(شہادت القرآن ضمیمہ گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ص۹۲،۹۳، خزائن ج۶ ص۳۸۸،۳۸۹)
’’جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ہی مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح ومہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘
(ضمیمہ کتاب البریہ اشتہار بحضور نواب ص۱۱، خزائن ج۱۳ ص۳۴۷)
’’مرزاقادیانی کی عرضی بخدمت گورنمنٹ پنجاب ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء میں نے مخالفت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابیں تمام ممالک عرب مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دی ہیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
’’میں ایک حکم لے کر آپ کے پاس آیا ہوں۔ یہ کہ تلوار سے جہاد کا خاتمہ ہے۔ اقتباس از فیصلہ جناب محمد اکبر۔‘‘ (ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج راولپنڈی مورخہ ۳؍جون ۱۹۵۵ئ)
’’اسلام میں جو جہاد کا مسئلہ ہے۔ میری نگاہ میں اس سے بدتر اسلام کو بدنام کرنے والا اور کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘ (حوالہ منیر رپورٹ)
’’اس زمانہ میں جہاد کرنا یعنی اسلام کے لئے لڑنا بالکل حرام ہے۔ مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔‘‘ (اربعین نمبر۴ حاشیہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳)