بھی کی اور خواب میں مجھے فرمایا۔ ’’سلمان منا اہل البیت علی مشرب الحسن‘‘ میرا نام سلمان رکھاگیا۔ یعنی دوسلم اور سلم عربی میں صلح کوکہتے ہیں۔ یعنی مقدر ہے کہ دو صلح میرے ہاتھ پر ہوںگی… معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جو سلمان آیا ہے اس سے بھی میں مراد ہوں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ ص۸، خزائن ج۱۸ ص۲۱۲)
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کو خواب اور وحی وغیرہ وضع کرنے میں خاص ملکہ حاصل تھا اور انہیں یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ ان دونوں کے ذریعے وہ بھولے بھالے مسلمان کو اپنے دام فریب میں پھنسا سکتے ہیں۔
سورہ جمعہ کا زمانہ نزول بھی سورہ محمد کی طرح ابتدائی مدنی دور ہے اور دیگر مفسرین قرآن کی طرح محمد علی مرزائی لاہوری بھی اس کا زمانہ نزول، حمائل شریف کے ص الف پر ۱ھ ہی تحریر کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ کا زمانہ ایمان ۷ھ ہے۔ آپ فتح خیبر کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے اور ان کو حضور خاتم النبیینﷺ کی صحبت میں بیٹھنے کا شرف تقریباً تین سال ہے۔ اس لئے ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہؓ جو ۷ھ میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ وہ ۱ھ میں نہ سورہ محمدؐ کے نزول کے وقت حضورﷺ کی صحبت میں بیٹھے ہوئے تھے اور نہ ہی سورہ جمعہ کے نزول کے وقت انہیں حضورﷺ کی صحبت میں بیٹھنے کا شرف نصیب تھا۔ یہی نہیں بلکہ سلمانؓ فارسی جن کے متعلق ان دونوں سورتوں کی متشابہ آیات کی تاویل میں احادیث ہیں۔ انہیں بھی ۱ھ میں حضورﷺ کی صحبت میں بیٹھنے کا شرف نصیب نہیں۔ ۱ھ میں ان ہر دو سورتوں سورۃ محمد اور سورہ جمعہ کے نزول کے وقت چونکہ دونوں صحابی ابوہریرہؓ اور سلمانؓ فارسی، مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے۔ اس لئے مذکورہ بالاروح المعانی اور بخاری کی دونوں روایات قابل غور ہیں۔ اس لئے ان کی بنیاد پر جو بھی دعویٰ ہوگا۔ باطل ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ باطل تھا۔
مادۂ فاروقیؓ، کھڑکی سیرت صدیقیؓ اور قرآن علیؓ
چونکہ مرزاغلام احمد قادیانی عربی، فارسی کے صرف ونحو اور منطق کی معلومات تھے۔ انہوں نے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں جس طرح عربی، اردو، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی وحی کے الفاظ کو ملا کر اپنی وحی کی عبارت تیار کی۔ اسی طرح انہوں نے لکھا کہ ان میں مادۂ فاروقیؓ ہے۔ سیرت صدیقیؓ کے ذریعے وہ نبوت کے قصر میں داخل ہوئے ہیں اور انہیں تفسیر قرآن علیؓ