مرافعہ گزار نے قانون کی حدود کے اندر رہنے کی کوشش کی ہو۔ لیکن جوش فصاحت وطلاقت میں وہ ان امتناعی حدود سے آگے نکل گیا ہے اور ایسی باتیں کہہ گیا ہے جو سامعین کے دلوں میں مرزائیوں کے خلاف نفرت کے جذبہ کے سوا اور کوئی اثر پیدا نہیں کر سکتی۔ روما کے مارک انٹونی کی طرح مرافعہ گزار نے یہ اعلان تو کر دیا ہے کہ وہ احمدیوں سے طرح آویزش نہیں ڈالنا چاہتا۔ لیکن صلح کا یہ پیغام ایسی گالیوں سے پر ہے۔ جن کا مقصد سامعین کے دلوں میں احمدیوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔
تنقید کے جائز حدود
اس میں کلام نہیں کہ مرافعہ گزار کی تقریر کے بعض حصے مرزاقادیانی کے افعال کی جائز اور واجبی تنقید پر مشتمل ہیں۔ غریب شاہ کو زدوکوب کرنے کا واقعہ محمد حسین اور محمد امین کے واقعات قتل اور مرزا(محمود) کے جبروتشدد کے بعض دوسرے واقعات جن کا حوالہ دیاگیا ہے۔ ایسے ہیں۔ جن پر تنقید کرنے کا ہر سچے مسلمان کو حق ہے۔ نیز اس تقریر کے دوران میں ان توہین آمیز الفاظ کا ذکر بھی کیاگیا ہے۔ جو قادیانی پیغمبر اسلام محمد (ﷺ) کی شان میں استعمال کرتے رہتے ہیں اور جو مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔
مرزائی اور مسلمان
مسلمانوں کے نزدیک محمد (ﷺ) خاتم المرسلین ہیں۔ لیکن مرزائیوں کا اعتقاد یہ ہے کہ محمدﷺ کے بروز میں کئی نبی مبعوث ہوسکتے ہیں اور وہ سب مہبط وحی ہوسکتے ہیں۔ نیز یہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی نبی اور مسیح ثانی تھا۔ اس حد تک مرافعہ گزار کی تقریر قانون کی زد سے باہر ہے۔ لیکن جب وہ دشنام طرازی پر آتا ہے تو مرزائیوں کو ایسے ایسے ناموں سے پکارتا ہے۔ جنہیں سننا بھی کوئی آدمی گوارا نہیں کرسکتا تو وہ جائز حدود سے تجاوز کرجاتا ہے اور خواہ اس نے یہ باتیں جوش فصاحت میں کہیں۔ یا دیدہ دانستہ کہیں۔ قانون انہیں نظرانداز نہیں کر سکتا۔
تقریر کے اثرات
مرافعہ گزار کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ اس کے سامعین میں اکثریت جاہل دیہاتیوں کی تھی۔ نیز یہ کہ اس قسم کی تقریر ان کے دلوں میں نفرت وعناد کے جذبات پیداکرے گی۔ واقعات