پہلے یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ عدالت کے سپرد جن معاملات کی تحقیق کی گئی تھی۔ ان کے دائرے میں تین اہم مسائل تصفیہ طلب تھے۔ مگر ہمیں اندازہ نہیں ہوسکا کہ یہ طے ہونے سے کیوں رہ گئے اور رپورٹ ان کے بارے میں کیوں خاموش ہے؟
کیا پولیس کا فائرنگ بے تحاشا نہ تھا؟
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ۴؍مارچ کی شام سے ۶؍مارچ کی دوپہر تک پولیس نے جو فائرنگ کیا وہ اندھا دھند (Indiscriminate) اور بے تحاشا (Excessive) تھا یا نہیں اور پبلک کو مشتعل کرنے اور ہنگاموں کی آگ کو تیز ر کر دینے میں اس کا بھی کوئی حصہ تھا یا نہیں؟ یہ سوال ہنگاموں کی ذمہ داری کے مسئلہ سے بھی گہرا تعلق رکھتا تھا اور مارشل لاء کے نفاذ تک نوبت پہنچانے والے حالات سے بھی۔ خصوصاً ذمہ داری کی تشخیص میں اس کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ تحقیقات میں حصہ لینے والی جماعتوں نے عدالت کے سامنے باربار یہ کہا ہے کہ پولیس کا بے تحاشا ظلم وتشدد فسادات کی آگ بھڑکنے کا اہم سبب تھا۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ۵؍مارچ کے اجتماع میں گورنر اور وزراء اور آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری سب کے سامنے ممتاز شہریوں نے فائرنگ کی زیادتی کا شکوہ کیا اور کوئی اس کی تردید نہ کر سکا۔ عدالت کے سامنے یہ بات بھی لائی جاچکی تھی کہ سرکاری دفتروں میں ہڑتال کی اصل وجہ وہ غم وغصہ ہی تھا جو عام شہریوں پر اندھا دھند گولیاں چلاتے دیکھ کر ہر شخص محسوس کر رہا تھا۔ چنانچہ سیکرٹریٹ، اے جی آفس، اور دوسرے بہت سے دفاتر میں ملازمین کے عملے نے جو احتجاجی جلسے کئے۔ ان میں سے ہر ایک کی پاس کی ہوئی قرارداد میں ’’اندھا دھند‘‘ اور بے تحاشا فائرنگ کا شکوہ موجود ہے اور یہی شکوہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی قرارداد میں بھی کیاگیا ہے۔ عدالت نے خود واقعات کا جو خلاصہ (ص۱۵۱تا۱۶۶)تک دیا ہے۔ وہ اگر پوری طرح عدالت کے پیش نظر رہتا تو اغلباً وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچتی کہ ۴؍مارچ کی شام کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (فردوس شاہ) کے قتل سے پہلے کے حالات اور اس کے بعد کے حالات بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ۴؍مارچ کی سہ پہر تک ایک طرف سے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں اور دوسری طرف سے گرفتاریاں، صرف چار مرتبہ لاٹھی چارج اور ایک مرتبہ فائرنگ ہوتا ہے اور پبلک کی طرف سے بھی پولیس پر سنگ باری کے صرف دو واقعات پیش آتے ہیں۔ اس پوری مدت میں کوئی علامت ایسی نظر نہیں آتی جو یہ ظاہر کرتی ہو کہ لاہور شہر کی عام آبادی بھڑک اٹھی ہے اور آبادی کے تمام طبقے اس کشمکش میں شامل ہوگئے ہیں۔